UK FM says gains by Syrian regime 'make peace talks harder'
القیصر پر صدر شام بشارالاسد کی افواج کے قبضہ کے بعد حکومت شام اب جہاں باغیوں کے مضبوط قلعہ حلب پر حملہ کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے وہیں فرانس نے آج کہا ہے کہ شامی فوج کی یہ پیش قدمی نہیں رکی تو ممکن ہے کہ اپوزیشن والے صدر اسد کے ساتھ مجوزہ امن بات چیت کا بائیکاٹ کریں۔ صدر اسد کی فوج حلب کے ارد گرد مسلح طورپر اکٹھی ہورہی ہے۔ اس دوران آج ہی امریکی وزیرخارجہ جان کیری اپنے برطانوی ہم منصب ولیم ہیگ سے ملاقات میں شام کی صورتحال پر گفتگو کررہے ہیں۔ امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ اس ملاقات میں شام کی خانہ جنگی اور اس خونریز تنازع کے خاتمہ کیلئے اس مجوزہ امن کانفرنس کے بارے میں مشاورت کریں گے جس کا انعقاد امریکہ اور روس ساتھ مل کر جنیوا میں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس امن کانفرنس میں صدر بشارالاسد کی حکومت اور شامی اپوزیشن دونوں کو مدعو کیا گیا ہے لیکن بدلے ہوئے حالات میں شاید شامی اپوزیشن اس کانفرنس میں حصہ نہ لے۔ بدلے ہوئے حالات میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے خبردار کیا ہے کہ باغیوں کے خلاف دمشق حکومت کی کامیابیوں کی وجہہ سے شام میں قیام امن کی راہ میں نئی رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما بھی آج اپنی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے ساتھ اس بارے میں مشورے کررہے ہیں کہ آیا امریکہ کی شامی باغیوں کی فوجی مدد کرنا چاہئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ شام میں جاری خون خرابہ روکنے کیلئے تمام متبادل راستوں پر غور کیا جارہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہاکہ شام میں امریکی فوجی مداخلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اوباما کی نیشنل سکیورٹی ٹیم کے ایک اہم رکن جان کیری نے رواں ہفتے مشرقی وسطی کا اپنا طے شدہ دورہ مؤخر کردیا تھا تاکہ واشنگٹن میں ہونے والی ایسی اہم ملاقاتوں کا حصہ بن سکیں، جن کا مقصد شامی بحران کاخاتمہ ممکن بنانا ہے۔ جین ساکی کے بقول وزیرخارجہ جان کیری امن مذاکرات منعقد کرانے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم ساکی نے زور دیتے ہوئے کہاکہ یہ کانفرنس صرف اس لئے منعقد نہیں کرائی جائے گی کہ لوگ مل کر تو بیٹھیں لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلے۔ دوسری طرف شام میں لبنان کی حزب اﷲ ملیشیا کے ہزاروں جنگجو شامی صدر بشارالاسد کی افواج کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف مسلح کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران صدر اسد کی حامی افواج کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں۔ اسی تناظر میں ولیم ہیگ نے ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جنیوا مذاکرات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اس صورتحال میں دمشق حکومت اپوزیشن کو شاید مناسب رعایتیں نہ دے اور دوسری طرف اپوزیشن بھی اس مذاکراتی عمل سے بدظن ہوجائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں