Khamenei adviser enters Iran's presidential contest
ایران کے صدارتی مقابلہ کیلئے آیت علی خامنہ ای کے ایک مشیر بھی آج صدارتی دوڑ میں شامل ہوگئے جبکہ سرکاری عہدیداران اس بات کے خواہاں ہیں کہ 2009ء کے متنازعہ انتخابات کے بعد جو ہلچل پیدا ہوئی تھی اس کے برخلاف جون میں منعقد ہونے والے انتخابات پرامن رہیں۔ اس وقت سے اصلاح پسند گروپس کو یا تو کچل دیا گیا ہے یا تو نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے جبکہ امکان ہے کہ اگلے صدر کا انتخاب ان چند سیاستدانوں میں سے کیا جائے گا جو خامنہ ای سے وفاداری پر شہرت رکھتے ہیں جبکہ اس کے نتیجہ میں مابعد انتخابات بد نظمی کا موجب بننے والے سیاسی اختلافات کے امکانات بہت ہی کم ہوجائیں گے۔ قانون ساز اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر غلام علی حداد عادل نے مقابلہ کیلئے اپنا نام درج کروادیا ہے۔ اس بات کا اظہار سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی رپورٹ میں کیا گیا وہ خامنہ ای کے ان تین وفاداروں میں شامل ہوگئے ہیں جو اس کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ خامنہ ای کے نظریات کو سیاسی تنازعہ میں فوقیت حاصل ہے سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ محمود احمدی نژاد کی دو ہنگامہ خیز معیادوں کے بعد عہدہ صدارت پر ان کا قابل اعتماد حامی فائز ہوتا کہ موجودہ سبکدوش ہونے والے صدر کی جانب سے اپنے جانشین کو ابھارنے کی کوشش کو ناکام بنایاجاسکے۔ حداد عادل کے حلیفوں میں سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولاویتی اور تہران کے مئیر باقر خلیباف بھی شامل ہیں جبکہ ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان میں سے دو بعدازاں امیدوار کے حق میں دستبردار ہوجائیں گے جس کی کامیابی کا انتہائی روشن امکان موجود ہو۔




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں