Burma's Thein Sein Visits Washington
امریکی صدر بارک اوباما نے میانمار کے صدر تھین سین کے انتظامیہ کی ستائش کی کہ میانمار کا انتظامیہ جمہوریت کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اور معاشی اصلاحات کی طرف قدم بڑھ رہا ہے۔ تاہم صدر اوباما نے میانمار میں جاری نسلی تشدد پر گہری تشویش کا اظہارکیا۔ 50 سال کے وقفہ کے بعد میانمار کے ایک قائد امریکہ کا دورہ کررہے ہیں۔ صدر اوباما نے میانمار کے صدر تھین سین کی ستائش کی کہ ان کے ملک نے نسلی کشیدگی کو دور کرنے حقیقی کوشش کی۔ صدر اوباما نے کہاکہ قانون کے مکمل نفاذ اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جائے۔ میانمار کے عوام کے انسانی حقوق کا احترام ضروری ہے۔ اندرون میانمار ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں امریکہ نے میانمار کے خلاف تحدیدات کو نرم بناسکا ہے۔ امریکہ کی جانب سے میانمار کے خلاف تحدیدات عائد کئے جانے کے بعد ہی دنیا کے اکثر ممالک نے بھی میانمار کے خلاف تحدیدات نافذ کیں۔ اب چونکہ میانمار میں جمہوریت کی سمت پیشرفت ہورہی ہے اس لئے امریکہ نے میانمار کے خلاف تحدیدات کو نرم کردیا ہے۔ 50سال کے وقفہ کے بعد میانمار کے ایک صدر تھین سین وائٹ ہاوز پہنچے ہیں۔ میانمار کے صدر تھین سین سے وائٹ ہاوزمیں ملاقات کے بعد صدر اوباما نے کہاکہ میانمار میں ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ صدر میانمار سے بات چیت کے دوران صدر تھین سین نے امریکی صدر کو بتایاکہ کس طرح سیاسی قیدیوں کو رہا کئے جانے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ سیاسی اصلاحات کو قانونی موقف دلایا جارہا ہے۔ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ میانمار کے نسلی اختلافات اور مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کاروائیوں پر صدر اوباما نے تشویش کا اظہار کیا۔ نسلی تشددکو صرف جنگ بندی کے ذریعہ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ نسلی کشاکش کو اس وقت ختم کیا جاسکتا ہے جبکہ تمام برادریوں اور تمام فرقوں کو سیاسی دھارے میں لایاجائے۔ نسلی تشدد سے بے گھر ہونے کو روکا جائے۔ عوام کے حقوق بحال کئے جائیں۔ میانمار کے صدر تھین سین نے کہاکہ اب میانمار نے جمہوری نظام پر عمل شروع کردیا ہے۔ اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ میانمار بھی اس جمہوری راستہ پر چل رہا ہے جس جمہوری راستے پر امریکہ چل رہا ہے۔ میانمار اور امریکہ دونوں جمہوری راستہ پر چل رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں