ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:12 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-20

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:12


جیسے ہی ونود نے سامنے کی طرف دیکھا اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ وہ بے تحاشہ بھاگ کھڑا ہوا۔
شاتو نے ٹھیک ہی کہا تھا، پھاٹک کے باہر ایسے بے شمار دیو قامت انسان کھڑے تھے جن کے رنگ کوئلے کی طرح سیاہ تھے، جن کے سروں پر سینگ اگے ہوئے تھے، آنکھیں مشعل کی طرح روشن تھیں اور جن کے مونہہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔
ونود وہاں سے بھاگ کر سیدھا فوارہ کے قریب پہنچا۔ شاتو کا بت ہمیشہ کی طرح اپنی جگہ کھڑا تھا۔ وہ انتہائی تیزی کے ساتھ پروفیسر کے کمرے میں داخل ہو گیا اور دھم سے اسی کرسی پر گر گیا جس پر سے وہ ابھی چند منٹ قبل اٹھ کر بھاگا تھا۔

ونود کو پریشان دیکھ کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر اور اس کے جسم کو پیسنے میں نہایا ہوا دیکھ کر پروفیسر سمجھ گیا کہ ونود کسی بہت ہی بھیانک حادثہ سے دوچار ہوا ہے۔ اس نے کہا "شاتو نے ہم پر ٹھیک ہی پابندی لگائی تھی نا۔۔۔"
"ہاں۔۔۔" ونود نے مری ہوئی آوازمیں جواب دیا۔
" تم نے حویلی سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی۔۔۔" پروفیسر نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔"
"اور پھر ۔۔۔" پروفیسر نے پوچھا۔
ونود نے جواب میں ساری بات تفصیل سے بتا دی اور پھر کہا "اب آپ اپنی کتاب کا بقیہ حصہ سنا دیجئے۔۔۔"
"ضرور سناؤں گا لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے سوچا کیا ہے؟" پروفیسرنے پوچھا۔
"میں نے اپنے ایک دوست کو اپنی مدد کیلئے بلایا ہے پروفیسر۔۔۔"
"اس کے علاوہ ۔۔۔" پروفیسرنے دوسرا سوال کیا۔
"آپ بھی آ گئے ہیں اور اب میرا خیال ہے کہ ڈرامہ کا صرف ڈراپ سین باقی رہ گیا ہے۔۔۔" ونود نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
"میرا خیال ہے کہ آج رات کو حسب وعدہ بارہ بجے کے بعد شاتو کی روح بھی ضرور آئے گی اور بت زندہ ہوجائے گا۔۔۔"
چند لمحات کی خاموشی کے بعد اس نے مزید کہا "شاتو مجھے اپنا راج کمار محبوب کہتی ہے اور آپ کو اپنا چچا جسونت سنگھ کہتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں ماضی میں باپ بیٹے رہ چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ آواز کس کی ہے جو شانتا کو اپنی بیوی کہتی ہے"۔
"جلد ہی اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوجائے گا۔۔۔" پروفیسر نے جواب دیا "کیوں کہ واقعات بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ روزانہ کوئی نئی الجھن پیدا ہوتی ہے کوئی نیا انکشاف ہوتا ہے اس لئے بہت ممکن ہے کہ جلد ہی اس راز پر سے پردہ اٹھ جائے۔۔۔" اچانک پروفیسر نے پوچھا "آپ کی بیوی شانتا کہاں ہے۔۔۔" "
اپنے کمرے میں۔۔۔" ونود نے جواب دیا۔
"لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نہیں ہے۔۔۔" پروفیسر نے کہا۔

"کیوں۔۔۔؟" ونود نے گھبرا کر پوچھا "آپ یہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ شانتا اس وقت اپنے کمرے میں نہیں ہے"۔
"میں نے ابھی تمہاری آمد سے قبل برآمدے میں کسی کے قدموں کی آواز سنی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑکی تک آیا تھا لیکن اس وقت جانے والا گرزچکا تھا۔۔۔ مجھے صرف اس کی پرچھائیں ہی نظر آئی تھی۔۔۔"

"میں ابھی آیا۔۔۔" ونود اتنا کہہ کر کمرے سے نکل کر شانتا کے کمرے کی طرف دیوانہ وار بھا گا۔۔۔ شانتا کے کمرے کا دروازہ بدستور کھلا ہوا تھا اور کالکا شانتا کے پلنگ کے قریب بیٹھا ہوا اونگھ رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔
شانتا کا بستر حالی تھا۔۔۔
شانتا نہ اپنے بستر پر تھی اور نہ کمرے میں۔۔۔
صاف ظاہر تھا کہ وہ کالکا کی لا علمی میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل گئی تھی اور پروفیسر نے واقعی شانتا کا ہی سایہ دیکھا تھا۔۔۔
وہ چلایا۔ "شانتا۔۔۔"

اس کی چیخ اتنی دلدوز تھی کہ کالکا اونگھتے اونگھتے اچھل گیا وہ بھی گھبرا کر چلایا "کیا ہوا مالک۔۔۔"
ونود نے بدستور چلاتے ہوئے کہا کہ "شانتا کہاں گئی ہے"۔
"مجھے نہیں معلوم مالک۔۔۔" کالکا نے تقریباً روہانسہ ہوکر شانتا کے خالی بستر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "میں ذرا سی دیر کیلئے اونگھ گیا تھا سرکار ۔۔۔ لیکن بی بی جی بھی تو سو رہی تھیں وہ آخر اچانک چلی کہاں گئیں۔۔۔"

ونود کے اعصاب پر جیسے فالج گرچکا تھا۔ وہ بت کی طرح کھڑا رہا اور پھٹی پھٹی نظروں سے شانتا کے خالی بستر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ دیوانوں کی طرح تہہ خانے کی سمت بھاگا۔۔ تاریکی سے ڈرے بغیر۔۔۔ سناٹے سے ڈرے بغیر۔۔۔انجام سے ڈرے بغیر۔۔۔ لیکن تہہ خانہ بھی خالی تھا۔۔۔
شانتا تہہ خانے میں بھی نہیں گئی تھی۔۔۔

تہہ خانے میں شانتا کو نہ پاکر ونود کے غم کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ اب اس نے تمام نوکروں کو بھی ساتھ لے لیا۔۔۔ تاکہ شانتا کو تلاش کیا جاسکے۔۔۔ لیکن کوٹھی میں شانتا کا کوئی پتہ نہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ شانتا کہاں چلی گئی ۔۔۔۔
اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ بت کی بیداری میں صرف تیس منٹ باقی رہ گئے تھے۔ ونود چاہتا تھا کہ بت کے جاگنے سے پہلے وہ شانتا کو تلاش کرے لیکن شانتا واقعی حویلی میں نہیں تھی۔

ونود شانتا کی تلاش میں ناکامی کے بعد کوٹھی کے ایک گوشہ میں کھڑا تھا کہ ایک نوکر دوڑتا ہوا اس کے نزدیک آیا اور اُس نے بڑی پریشانی کے عالم میں کہا "مالکن باغ میں بے ہوش پڑی ہیں۔۔۔" لیکن جب ونود تمام نوکروں کے ہمراہ اس جگہ پہنچا تو شانتا پراسرار کنویں کی جگت پر بے ہوش پڑی تھی۔۔۔ اس کی سانس بڑی مدھم رفتار سے چل رہی تھی۔
تقریباً دس منٹ کی کوشش کے بعد شانتا ہوش میں آگئی۔ ونود نے پوچھا "تم باغ کیوں گئی تھیں۔۔۔"
"میں باغ خود نہیں گئی تھی مجھے کوئی انجانی طاقت وہاں گھسیٹ کر لے گئی تھی۔۔۔" شانتا نے مردہ آواز میں کہا۔
"باغ میں تم بے ہوش کیسے ہوگئیں۔۔۔" ونود نے دوسرا سوال کیا۔
"میرے کانوں میں ایک آواز آرہی تھی۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔ آؤ میرے ساتھ۔۔۔ میں اس آواز کے حکم پر بستر سے اٹھی کمرے سے باہر نکلی، باغ پہنچی۔۔۔ لیکن آواز مسلسل گونجتی رہی "آؤ میرے ساتھ۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔ حد یہ کہ میں کنویں کی جگت پر پہنچ گئی۔۔۔"
"اور پھر کیا ہوا۔۔۔" ونود نے گھبرا کر پوچھا۔

"میں خود محسوس کررہی تھی کہ میں نیم بیداری کی حالت میں ہوں۔" شانتا نے کہا
" میں یہ بھی محسوس کررہی تھی کہ اپنے اعصاب پر میرا کوئی اختیار باقی نہیں رہا ہے۔۔۔ میں کنویں کی جگت پر ایک زندہ لاش کی طرح کھڑی تھی کہ اچانک مجھے اندھیرے میں ایک روشنی نظر آئی میں نے اس روشنی کی طرف غور سے دیکھا تو یہ روشنی آہستہ آہستہ ایک جسم میں تبدیل ہونے لگی اور پھر یہ روشنی ایک مکمل جسم بن گئی۔"
"یہ جسم کس کاتھا شانتا" ونود نے پوچھا۔۔۔" آدمی کا یا عورت کا۔"
"یہ مرد کا جسم تھا" شانتا نے جواب دیا "اور پھر یہ جسم میرے قریب آنے لگا۔۔۔حد یہ کہ بالکل قریب آگیا۔ اب اس جسم سے آواز آئی "میں تمہیں لینے آیا ہوں نرمل۔۔۔ تم میری ہو۔۔۔ آج میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا یہاں سے بہت دور ۔۔۔ بادلوں سے بھی آگے۔۔۔"

شانتا نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے مزید کہا "جب یہ جسم میرے بالکل قریب آگیا تو میں نے ایسا محسوس کیا جیسے میں برف ہوتی جا رہی ہوں۔۔۔ اچانک مجھے بہت زیادہ سردی لگنے لگی اور پھر میں بے ہوش ہوگئی، آنکھ کھلی تو آپ مجھے جگارہے تھے"۔
ونود شانتا کی یہ داستان سن کر حیران ہو گیا۔ اس نے پوچھا: " کیا تم اس جسم کا حلیہ بتا سکتی ہو۔۔۔"
"ہاں ۔۔۔" شانتا نے کہا "وہ سفید لباس پہنحے تھا۔ اس کے چہرے پر داڑھی اور مونچھیں تھیں، تندرستی اچھی تھی، آنکھیں بڑی بڑی اور روشن تھیں، خدوخال بڑے تیکھے تھے اور ۔۔۔اور اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔۔۔"
"کیا تم بتاسکتی ہو کہ تمہیں بالکل اچانک ٹھنڈ کیوں لگنے لگی" ونود نے مزید پوچھا۔
"میرا خیال ہے کہ یہ ٹھنڈ اس جسم سے ہی آرہی تھی کیونکہ جب تک یہ جسم میرے قریب نہیں آیا تھا مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی"۔ شانتا نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔

شانتا کی حالت اتنی خراب ہورہی تھی کہ ونود اپنا سابقہ فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کہا "تم پریشان نہ ہو شانتا۔۔۔ میں کل صبح ہی تمہیں پتا جی کے پاس شہر بھیج دوں گا"۔
"اور آپ یہیں رہیں گے۔۔۔" شانتا نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔ مجھے اپنے دوست کا انتظار ہے۔۔۔ وہ آجائے گا تو میں بھی چلا جاؤں گا"۔ ونود نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔۔۔ ونود اسی دن مجھے خط بھیج کر اگات پور طلب کرچکا تھا اور اس نے اس خط کا تذکرہ شانتا سے نہیں کیا تھا۔

"پھر میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔۔" شانتا نے ذرا مضبوط لہجے میں کہا "تمہارا دوست آرہا ہے یہ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔۔۔"
"خیر۔۔۔"ونود نے کہا "اور تم سو جاؤ۔۔۔میں ذرا پروفیسر کے پاس جارہا ہوں۔۔۔"
اتنا کہہ کر ونود نے گھڑی دیکھی۔۔۔" بارہ بج کر پچیس منٹ ہوچکے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بت بیدار ہوچکا تھا۔

وہ بڑی تیزی سے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔ اور پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فوارے کے چبوترے سے شاتو کا مجسمہ غائب تھا۔ بت زندہ ہوچکا تھا۔

ونود اب پروفیسر کے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔ اور داخل ہوتے ہی چیخنے لگا کیوںکہ پروفیسر تارک ناتھ کمرے کے فرش پر مردہ پڑے تھے۔
پروفیسر تارک ناتھ مرچکے تھے۔۔۔۔

اس کے بعد کیا ہوا؟
پروفیسر تارک ناتھ کا قتل کیسے ہوا؟
شاتو کے بت نے بیدار ہونے کے بعد کیا کارروائی کی؟
حویلی کی روحوں کو کیسے قرار آیا؟

یہ سب اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:12

4 تبصرے:

  1. aap aise eak eak qist eal line ke shaye karo ge to novel 5o salon se bhi zyda chalta rahega janab?

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نہیں جناب۔ یہ قسط پروف ریڈنگ کے لیے رکی رہ گئی تھی۔ معذرت

      حذف کریں
  2. بھائی صاحب ۔۔۔
    یہ قسطیں بھی بڑی ظالم ہوتی ہیں ۔۔۔اب آئیندۃ قسط تک ۔۔۔صبر۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ہم بیس سال پہلے ایسا ہی مکالمہ ادا کرتے ہوئے پانی پی پی کر مدیران رسائل کو کوستے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ اس میں ان بچاروں کا کوئی قصور نہیں تھا

      حذف کریں