تحمل اور نرمی - فضیلت و اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-26

تحمل اور نرمی - فضیلت و اہمیت


"تحمل" کا لفظ "حمل" سے بنا ہے، جس کے معنی "بوجھ اٹھانا"، "برداشت کرنا"، "برد باری کا مظاہرہ کرنا" اور "نرمی اختیار کرنا" کے ہیں۔
اسلامی اصطلاح میں ناگوار باتوں میں برداشت سے کام لینا اور ناموافق حالات میں نرمی اور تواضع کا اظہار کرنا "تحمل" کہلاتا ہے۔ اسی معنی میں "علم" بمعنی "برد بار"بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

تحمل کی حقیقت:
اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ گویا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں بیک وقت کارفرما ہوتے ہیں۔ تحمل و برداشت کے سلسلہ میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ انتقام کی قدرت نہ ہونے اور انتظام نہ لے سکنے کی مجبوری و کمزوری کا نام تحمل نہیں ہے بلکہ انتقام کی طورپر طاقت رکھنے کے باوجود غصہ کو پی جانا اور عفو و درگذرسے کام لینا ہی تحمل کہلاتا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتاہے کہ مطلب اور فائدے کی خاطر انسان کسی دوسرے کی سختی اور برائی کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور خاموشی اختیار کرلیتا ہے لیکن یہ تحمل نہیں ہے، کیونکہ ایسا ایک وقتی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر کیا جاتاہے، اپنی عادت اور صفت کے پیش نظر نہیں کیا، اس لئے اس عمل کو بھی تحمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تحمل کی اہمیت:
ﷲ تبارک و تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے ایک صفت "حلم" بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے اور اپنے بندوں کے گناہوں، خطاؤں، لغزشوں اور غلطیوں سے صرف نظر فرماکر معاف فرمادیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر قسم کی قوت و طاقت کا منبع ہے جزا و سزا دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے لیکن اپنی شان کریمی کی وجہہ سے وہ اپنے بندوں کو سزا نہیں دیتا بلکہ معاف فرمادیتا ہے اور اپنے بندوں کی غلطیوں، گناہوں اور کوتاہیوں پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت اور ڈھیل دے کر گناہوںاور غلطیوں سے بازآنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع عطا فرماتا ہے یہ سب اس کی شان حلم کی وجہہ سے ہے۔

حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کا تحمل:
ﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجا اور آپؐ کو صفت "حلم" سے بھی نوازا یہی وجہہ ہے کہ آپؐ نے کبھی اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے جانی دشمن اہل بیت اور صحابہ کرامؓ پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کو بھی معاف فرمادیا۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن میں سے ایک واقعہ فتح مکہ کا بھی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب پورا مکہ مکرمہ آپؐ کے رحم و کرم پر تھا اور تمام قریش مکہ عاجز و مجبور تھے لیکن اس کے باوجود بھی حضوراکرمؐ نے شان رحمت اور شان حلم کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ کرامؓ پر سرزمین مکہ تنگ کرنے والوں، غلام صحابہ کرامؓ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے اور انہیں بے دردی سے شہید کرنے والوں کو بھی یہ کہہ کر معاف فرمادیا کہ :
"جو ہتھیار ڈال دے اس کیلئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس کیلئے امکان ہے، جو مسجد میں داخل ہوجائے اس کیلئے امان ہے اور جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کیلئے بھی امان ہے"۔
نبی اکرمؐ کو مکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بار آزمائشوں، تکلیفوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپؐ نے ہر موقع پر نہ صرف خود صبر و تحمل، استقامت اور عفو و درگز کا عظیم مظاہرہ کیا بلکہ صحابہ کرامؐ کو بھی صبر و تحمل کی تاکید و تلقین فرمائی۔

نبی اکرمؐ نے غصے پر قابو رکھنے کو اصل طاقت قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
"طاقتور وہ شخص نہیں ہے جو کشتی( پہلوانی) میں دوسروں کو پچھاڑتا ہے بلکہ طاقتور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے (نفس کے) اوپر قابو رکھتا ہے"۔ (صحیح بخاری)۔
جو شخص انتقام کی طاقت رکھنے کے باوجود دوسروں کو معاف کردیتاہے، اسے اﷲ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
حضرت موسی علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے پوچھا۔ اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے ؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
" وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے"۔
(مشکوۃ المصابیح)۔

islamic manners - patience

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں