عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر - اعلیٰ پولیس افسر پانڈے کی گرفتاری کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-26

عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر - اعلیٰ پولیس افسر پانڈے کی گرفتاری کا امکان

عشرت جہاں فرضی انکاونٹر کیس میں گجرات کے ایک اعلیٰ پولیس افسر پی پی پانڈے کو جلد ہی سی بی آئی گرفتار کرسکتی ہے۔ ان پر فرضی انکاونٹر میں عشرت جہاں اور3دیگر کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ پانڈے اس وقت احمد آباد پولیس کی کرائم برانچ میں جوائنٹ کمشنر تھے۔ انکاونٹر کے بعد حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ چاروں دہشت گردوں اور وزیراعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ انکاونٹر کا یہ واقعہ جون 2004ء میں بہت ہی منظم طریقے سے انجام دیا گیا تھا۔ سی بی آئی کے ایک سینئر افسر نے بتایاکہ ہم نے انہیں سمن جاری کیا تھا لیکن انہوں نے اس کی تعمیل نہیں کی، اس لئے عنقریب ہی ان کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔ 1980ء کے گجرات کیڈر کے آئی پی ایس افسر پانڈے اس وقت ایڈیشنل ڈی جی (سی آئی ڈی) کرائم برانچ گجرات ہیں۔ فائرنگ میں سی بی آئی ان کے خلاف پہلے سے تفتیش کررہی ہے۔سی بی آئی کا کہنا ہے کہ عشرت جہاں اور تین دیگر احمد کے مضافاتی علاقے میں انکاونٹر سے قبل احمد آباد پولیس کی تحویل میں تھے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل سی بی آئی گجرات پولیس کے ایس پی جی ایل سنگھل اور پانچ دیگر پولیس افسران کو اس معاملہ میں گرفتار کرچکی ہے۔ اگر اس کیس میں پانڈے گرفتار کئے جاتے ہیں تو وہ گجرات کے سب سے اعلیٰ پولیس افسر ہوںگے۔ دریں اثناء سی بی آئی نے گجرات پولیس کے ڈی جی پی اور احمد آباد کے سابق پولیس کمشنر کے آر کوشک سے چار گھنٹے تک تفتیش کی ہے۔ ادھر تفتیشی ایجنسی نے گجرات ہائی کورٹ میں ایک درخواست پیش کی ہے جس میں اپیل کی ہے کہ موجودہ آئی پی ایس افسر ستیش ورما کی سروس میں توسیع کی جائے اور اس سے تفتیش کی اجازت دی جائے۔ امید ہے کہ عدالت اس ہفتے یا اگلے ہفتے سماعت کرے گی۔ سی بی آئی کی ٹیم کے مطابق مسٹرکوشک 2007کے ریاستی اسمبلی انتخابات کے دوران ڈی جی پی تھے اور جس وقت عشرت جہاں واردات ہوئی تھی اس وقت وہ پولیس کمشنر تھے۔ کوشک سے تفتیش کے بعد ڈی جی پی (اے ڈی جی پی) پی پی پانڈے سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ وہ اس وقت ڈی سی بی میں جوائنٹ کمشنر آف پولیس تھے۔ ان سے پیر کو تفتیش کی گئی ہے۔ فرضی انکاونٹر کے بعد ڈی سی بی نے دعویٰ کیا تھا کہ مسٹر کوشک کو خفیہ ایجنسی کے ذریعہ یہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستانی دہشت گرد گروہ کی ایک ٹیم ریاست میں آئی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ گجرات ہائی کورٹ عشرت جہاں فرضی تصادم کیس کے بارے میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ اس معاملے کی تفتیش میں ریاستی پولیس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے معاملے کی تفتیش کی ذمہ داری سی بی آئی کے سپرد کی جاتی ہے۔ گجرات پولیس کو اس الزام کا سامنا ہے کہ اس نے 2004ء میں 19 سالہ طالبہ عشرت جہاں اور 3دیگر افراد کو ایک فرضی پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا تھا۔ ریاستی پولیس کا کہنا تھا کہ عشرت جہاں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا اور وہ وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ہلاک کرنے کیلئے اپنے ساتھیوںکے ساتھ ممبئی سے گجرات آئیں تھیں۔ اس سے قبل عدالت کی تشکیل کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم نے اس کیس کی چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پولیس کا دعویٰ فرضی ہے اور عشرت جہاں اور ان کے ساتھیوں کو مبینہ پولیس تصادم سے پہلے ہی ہلاک کیا جاچکا تھا۔ عدالت کے مطابق یہ ایک غیر معمولی کیس ہے جس کے مضمرات قومی سطح پر محسوس کئے جائیں گے۔ ہائی کورٹ نے ایس آئی ٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس معاملے میں متعلقہ پولیس افسران کے خلاف قتل کا نیا مقدمہ درج کرائے تاکہ سی بی آئی اپنی تفتیش شروع کرسکے۔ عشرت جہاں کے اہل خانہ کافی عرصے سے اس معاملے کی سی بی آئی سے انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ فرضی انکاونٹر کے ایک دوسرے کیس میں گجرات کے کئی سابق اعلیٰ پولیس افسر پہلے سے جیل میں ہیں۔ ان میں ڈی جی ونجارا بھی شامل ہیں۔

Ishrat case: Guj top cop PP Pande likely to be arrested

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں