کیا سقوط حیدرآباد کی تباہی سے بچنا ممکن تھا؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-23

کیا سقوط حیدرآباد کی تباہی سے بچنا ممکن تھا؟

کیا سقوط حیدرآباد کی تباہی سے بچنا ممکن تھا؟
بھیانک مظالم، قتل عام اور تباہی الحاق سے انکار کا جواز نہیں

آج جبکہ سقوط حیدرآباد کو زائد از پانچ دہائیاں گذر چکی ہیں لیکن آج بھی یہ سوال موضوع بحث رہتا ہے کہ سقوط حیدرآباد کے بعد جو تباہی و بربادی اور قتل وغارت گری ہوئی کیا اس سے بچنا ممکن تھا؟
اور اس عظیم تباہی کا ذمہ داری کون ہے؟

آزاد حیدرآباد کا نعرہ لگانے والے حضور نظام؟ ان کے وزیراعظم میر لائق علی خان اور مجلس اتحاد المسلمین کے قائد سید محمد قاسم رضوی؟ یا ریاست کو الحاق پر مجبور کرنے والی حکومت ہند اور سردار پٹیل کیونکہ وہ آزادی کے بعد ریاستی امور کے وزیر تھے اور ان کے ساتھ تھے پنڈت نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن وغیرہ۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آزادی کے بعد ملک میں انسان کی لائی ہوئی یہ سب سے بڑی تباہی تھی۔ کیونکہ حیدرآباد پر دباؤ ڈالنے کیلئے حکومت ہند نے بدترین قسم کی معاشی ناکہ بندی کی تھی۔ جان بچانے والی دوائیں، پینے کے پانی صاف کرنے والی گیس گلورین، پٹرول، ڈیزل، ضروری مشینیں اور ان کے پرزے، بچوں کی غذائیں، دودھ اور بہت ساری اشیائے ضروریہ سے حیدرآبادی محروم تھے اور معاشی ناکہ بندی سے 15یا 18فیصد مسلمان متاثر ہوئے تو 82 تا 85 فیصد ہندو بھی مصائب کا شکار ہوئے۔
کلورین کی عدم فراہمی سے غیر صحت مند پانی پی کر ہیضے اور دوسری بیماریوں کا شکار ہونے والے ہندو بھی تھے بلکہ زیادہ تعداد میں متاثر ہندو ہی ہوئے۔

مواصلات، ریلویز اورہوائی جہازوں کی پروازیں بھی پابندیوں کا شکار تھیں۔ کوشش تھی کہ حیدرآباد کو ساری دنیا سے ہر طرح کاٹ دیا جائے۔ حکومت ہند کی طرف سے حیدرآبادی عوام کو آزادی کے بعد یہ مصائب پہلا تحفہ تھے اس کے بعد "پولیس ایکشن" کہہ کر حیدرآباد کے خلاف زبردست فوجی کارروائی کی گئی جس کے لئے کی گئی تیاریوں کا حال جنرل جے این چودھری کی ڈائری یا "آپریشن پولو" کے نام سے لکھی گئی یاداشتوں سے ثابت ہے۔

حیدرآباد کے خلاف فوجی کارروائی سے قبل حکومت ہند نے ان تمام معاہدات کی خلاف ورزی کی جس کی پابندی اس کا اخلاقی فریضہ تھا۔ حیدرآباد کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کیلئے نومبر 1947ء میں حیدرآباد سے کئے گئے معاہدہ انتظام جاریہ Stand Still Agreement کی مدت (جو ایک سال تھی) ختم ہونے تک کا انتظار نہیں کیا گیا۔
ایک ہم بنیادی سوال اس سلسلہ میں یہ ہے کہ قانون آزادی ہند کی دفعہ (7) کے تحت تمام والیان ریاست کو برطانوی حکومت نے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شریک ہونا نہیں چاہیں تو آزاد رہ سکتے ہیں۔
جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس قانون کا اعلان کیا تو حکومت ہند اس کی دفعہ 7 پر کوئی اعراض کیا تھا؟
یا حکومت برطانیہ پر زور دیا تھا کہ والیان ریاست کو اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا کوئی حق کوئی اختیار نہیں دینا چاہئے۔

جب اعتراض کا وقت تھا تو کانگریس اور مسلم لیگ کے قائدین نے اعتراض کیا نہیں اور نہ ہی حکومت برطانیہ سے یہ طئے کیا تھا کہ ہندو اکثریت والی ریاستوں کو ہندوستان سے الحاق کرنا لازمی ہوگا۔ لیکن حکومت ہند نے صرف دھونس و دھاندلی کا راستہ اپنایا قانون کو بالائے طاق رکھ کر حکومت ہند نے طاقت کے بل بوتے پر حیدرآباد پر دباؤ ڈالا۔

معاہدہ انتظام جاریہ کے بعد حکومت کا فرض تھا کہ وہ حالات کو سدھارنے کی کوشش کرتی اور معاہدہ کی پابندی کرتی لیکن حکومت ہند نے نہ ہی معاہدہ پر عمل کیا اور نہ ہی اپنی طرف سے کسی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا الٹا انسانیت کو شرما دینے والی ناکہ بندی کی، سرحدات پر "شورش کروائی"۔ "شورش " کو آپ عہد حاضر میں دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔
مبالغہ آمیز ہی نہیں اشتعال انگیز جھوٹا پروپگنڈہ بھی کیا۔ نظام کی رعایاکو نظام کے خلاف اکسایا جاتا۔ کانگریس کے تربیت کردہ مداخلت کاروں نے ریاست میں جی بھر کے دہشت گردی کی تھی اور یہ دہشت گردی حیدرآباد کے پڑوسی صوبوں کی مدد سے خاص طور پر ممبئی( موجودہ مہاراشٹرا) اور مدراس ( ٹاملناڈو) کی مدد اور تعاون سے بلکہ زیر سرپرستی انجام دی جاتی تھی اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس صورتحال کا علم حکومت ہند کو بھی رہا ہوگا۔

حیدرآباد سے حکومت ہند کی پالیسی کا سارا زور اس بات پر تھا کہ حیدرآباد غیر مشروط الحاق قبول کرلے لیکن اس کے ساتھ ہی جنگی تیاریاں بھی جاری تھیں جس کا پتہ حیدرآباد کے فاتح میجر جنرل کی لکھی ہوئی ڈائری "آپریشن پولو" کے مطالعہ سے چلتا ہے۔
دوسری طرف حیدرآباد پر دباؤ ڈالنے کیلئے مداخلت کاری دراندازی جاری تھی اور یہ درانداز سرحدات پر خاصی دہشت گردی مچاتے تھے۔

اگر تمام واقعات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت ہند بلکہ سردار پٹیل چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو حیدرآباد کا الحاق کرلیا جائے اس لئے معاہدہ انتظام جاریہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے حیدرآباد پر ممکنہ دباؤ ڈالنے کیلئے تمام جتن کئے گئے جن میں انتہائی سخت معاشی ناکہ ، سرحدات پر دہشت گردی، اندرون ریاست تحریک مزاحمت اور ریل سڑک کے راستوں کے علاوہ فضائی راستے بھی منقطع کر دئیے گئے تھے۔ حیدرآباد کو ہر طرح سارے ملک اور ساری دنیا سے کاٹ دیا گیا تھا حیدرآباد پر دباؤ ڈالنے کے یہ سارے حربے تو معاہدہ انتظام جاریہ کی مدت ختم ہونے (اواخر نومبر 1948ء) کے بعد آزمائے جا سکتے تھے۔

اس معاہدہ کی دفعہ 4 کے تحت کہا گیا تھا کہ "کوئی نزاع جو اس معاہدہ یا ایسے معاہدات اور انتظامات کے تعلق سے پیدا ہو تو تصفیہ ثالثی کے سپرد ہوگا"۔

واقعات سے ثابت ہے کہ اس معاہدہ پر عمل درآمد کرنے میں حکومت ہند پر خلوص اور نیک نیت نہیں تھی اور نہ ہی ثالثی کیلئے تیار تھی۔
دونوں ہی فریق اپنے موقف پر اٹل رہے اس وجہ سے مذاکرات ناکام رہے۔ جو چیز حکومت ہند کے خلاف سب سے زیادہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت ہند حیدرآباد کے مستقبل کا فیصلہ یعنی ہند سے الحاق یا آزادی حیدرآبادی عوام کو کرنے دینے کے لیے استصواب عامہ کی تجویز پیش کرکے فوراً ہی اس سے دستبردار ہو گئی۔ پرامن فیصلے کا یہ آسان ترین طریقہ تھا جس پر حکومت ہند تیار نہیں ہوئی۔

وزیراعظم لائق علی نے مذاکرات کی ذمہ داری اپنے سر لی اور مسلسل دہلی کے چکر کاٹے۔ جنوری تا جون 1948ء تک وہ اپنا وفد لے کر 10 مرتبہ دہلی گئے۔ ہر مرتبہ کوئی نئی شرط لگائی جاتی۔ جب بات معاہدہ کے قریب ہوتی تو حکومت ہند کوئی نیا مسئلہ کھڑا کر دیتی۔
مذاکرات کی تفصیلات لائق علی نے "ٹریجڈی آف حیدرآباد" میں تفصیل سے لکھی ہیں۔

حکومت ہند کو حیدرآباد کے پاکستان سے تعلقات پر اعتراض تھا۔ کراچی اور لندن میں حیدرآباد کے ایجنٹ جنرل مقرر کرنے کو حکومت ہند پسند نہیں کرتی تھی۔ پاکستان کی مالی مدد کیلئے حیدرآباد نے پاکستان کو جو 20 کروڑ کے تمسکات دئیے تھے وہ بھی حکومت ہند کیلئے اعتراضات کا باعث تھا تاہم حیدرآباد کی یہ غلطیاں اس قتل عام اور تباہی کا جواز نہیں ہیں۔
اسی طرح حیدرآباد کا اقوام متحدہ سے رجوع ہونا بھی کوئی اتنی بڑی خطا نہ تھی۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معاہدہ انتظام جاریہ کے اختتام تک صرف مذاکرات کئے جاتے معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے بعد حیدرآباد پر دباؤ ڈالا جاتا اور فوجی کارروائی کو آخری چارہ کار قرار دیا جاتا۔
فوجی کارروائی وقت سے پہلے کی گئی اور فوجی کارروائی کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہندوستانی فوج نے کسی دشمن کا ملک فتح کیا ہو۔ حکومت ہند کی مخالفت تو حضور نظام سے تھی۔ حکومت ہند کے مجرم حضور نظام، لائق علی ان کی حکومت، حیدرآباد کی فوج اور مجلس اتحاد المسلمین اوراس کے قائد قاسم رضوی اور رضاکاروں سے بھی نہ کہ حیدرآباد کے عوام سے۔ لیکن فوجی کارروائی سے پہلے حیدرآبادی عوام نے بلا لحاظ مذہب و ملت ہر طرح کے بھیانک مصائب کا سامنا کیا اور فوجی کارروائی کے بعد حیدرآبادی مسلمان ہدف بنے، ان کو ہر طرح سے تباہ کیا گیا۔

فوجی کاروائی کے دوران اور فوجی کارروائی کے بعد ریاست میں امن و امان بحال رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی قتل و غارت گری لوٹ مار کرنے والوں میں بھلے سے فوج شامل نہ ہو لیکن دہشت گردوں اور غنڈوں کو فوج نے کھلی چھوٹ کیوں دی تھی؟
اس طرح ساری تباہی کی ذمہ دارحکومت ہند ہے نہ کہ حکومت حیدرآباد اور قاسم رضوی اور ان کے رضاکار۔
جو تباہی حیدرآباد میں مچائی گئی ان سے مفر ممکن تھا اگر حکومت ہند چاہتی۔ لیکن سردار پٹیل اور دیگر اکابرین نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس لئے اس تباہی کی ذمہ داری حیدرآباد کی فاتح فوج پر ہے۔
فوج چاہتی اور حکومت ہند چاہتی تو امن وامان کا بحال رکھا جانا ممکن تھا۔
مہاسبھائی، کانگریسی اور آریہ سماجی اور دیگر فسادیوں کو حکومت ہند، حیدرآبادکی فوجی حکومت قابو میں رکھنے میں کامیاب رہتی تو کوئی تباہی نہ ہوتی۔
حکومت ہند کی افواج مہذب ملک کی مہذب افواج تھیں نہ کہ زمانہ جاہلیت کی وحشی افواج جو مفتوح ملک اور عوام کو تباہ کرنا اپنا فرض مانتی تھیں۔

اس لئے حیدرآباد میں نام نہاد پولیس ایکشن کے بعد جو تباہی آئی اس کیلئے حضور نظام، لائق علی حکومت اور قاسم رضوی کو ذمہ دار قراردینا عظیم غلطی ہے۔
حیدرآباد کا ہندوستان سے الحاق نہ کرنے کی سزا اس تباہی و برابدی اور کم ازکم دولاکھ افراد کی موت کا جواز نہیں بن سکتا ہے۔

قتل عام اور غارت گری کے علاوہ حیدرآبادی مسلمانوں کو معاشی طورپر تباہ کرنے جامعہ عثمانیہ کا کردار بدل دینے، اردو سے دشمنی، حیدرآبادیوں کی جگہ بیرون حیدرآباد سے لائے گئے اعلیٰ عہدیداروں کا تقرر، اردو داں غیر مسلم ملازمین تک بے روزگار کئے گئے۔۔۔ ان تمام باتوں کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی الحاق نہ کرنے کی یہ سزا ہو سکتی ہے۔

آنے والے کل کا مورخ جب اس المناک داستان کی تاریخ لکھے گا تو وہ اس عظیم تباہی کیلئے حکومت ہند کو ہی ذمہ دار ٹھہرائے گا۔

Was destruction of fall of hyderabad avoidable? Article: Zainab Shah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں