میر لائق علی کے مستعفی ہونے کے بعد حیدرآباد دکن میں کیا ہوا؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-02

میر لائق علی کے مستعفی ہونے کے بعد حیدرآباد دکن میں کیا ہوا؟

سقوط حیدرآباد سے پہلے ہی وزیراعظم حیدرآباد لائق علی مستعفی ہوچکے تھے۔ لائق علی کے استعفیٰ کے بعد حضور نظام نے ہندوستان کے ایجنٹ جنرل کے ایم منشی کے مشورہ سے ایک عارضی حکومت بنانی چاہی تھی۔ نظام کے ولی عہد شہزادہ برار اعظم جاہ کو عارضی حکومت کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ منشی سے مفاہمت کے بعد حضور نظام نے منشی کے مشورے کے مطابق اپنی زندگی میں پہلی بار حیدرآباد کی نشرگاہ (ریڈیو اسٹیشن) جا کر تقریر نشر کی، اس تقریر کا مسودہ بھی منشی نے تیار کیا تھا۔

18/ستمبر کو شہزادہ برار نے جو عارضی حکومت کے سربراہ بنائے جانے کے بعد پھولے نہیں سما رہے تھے۔ صبح سویرے چیف سکریٹری کو طلب کیا اور بڑے کرو فر سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ بحیثیت سربراہ حکومت ان کا طریق کار کیا ہوگا؟
لیکن ان کی یہ خوشی بھی بھی عارضی تھی کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر آ گئی کہ بھارتی حکومت نے منشی سے کی گئی مفاہمت کو مسترد کر دیا ہے اور پٹیل نے منشی کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر سرزنش کی۔
منشی کا یہ اقدام اختیارات سے تجاوز تھا یا نہیں؟ مگر بہرحال وہ ہندوستانی حکومت سے طرف کیا گیا تھا اور ایمانداری اور شرافت کا تقاضا تھا کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن اسے یکسر مسترد کر دیا گیا اس لئے اگر منشی نے یہ کہا تھا کہ "حیدرآباد کے سقوط کے ساتھ اس کا بھی سقوط ہو گیا ہے" تو کچھ غلط نہیں کہا تھا۔

نظام نے چیف سکریٹری کو طلب کیاجس نے سب حالات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ اس کی موجودگی ہی میں سلامتی کونسل سے مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ وصول ہوا۔ اس کیلئے جو مسودہ نظام کے مشورہ سے چیف سکریٹری نے بنایا اس میں
NOT TO PRESS THE CASE IN THE SECURITY COUNCIL
کے الفاظ تھے۔
منشی کو جب یہ مسودہ ملا، اس نے ٹیلیفون سے کہا کہ یہ الفاظ بالکل ناکافی ہیں۔ منشی کی بات مان کر نظام ایک بار رسوا ہو چکے تھے مزید رسوائی کیلئے تیار نہ تھے منشی کو جواب دیا گیا کہ اس مسودے میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
اس پر منشی نے ، جو بھارتی حکومت کی سرزنش سے پہلے ہی جھنجھلارہا تھا طیش میں آکر کہا کہ نظام جلد ہی اپنا فیصلہ بدل لیں گے۔
ٹیلیفون سے اس گفتگو کے چند منٹ کے اندر ہی انڈین ایئر فورس کے 5-6 ہوائی جہاز شاہی محل کے عین اوپر نیچی پرواز کرنے لگے۔ یہ پرواز اتنی نیچی تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ چھتوں کو چھولیں گے۔ اس حرکت کا مقصد بظاہر دہشت پھیلانا تھا جس میں اسے کامیابی ہوئی۔ کیونکہ نظام کے اعصاب نے جواب دے دیا اور منشی کی خواہش کے مطابق سلامتی کونسل سے مقدمہ واپس لینے کی ہدایت جاری ہو گئی۔

نظام کے نشری اعلان نے مسلمانوں کو مایوسی اور پستی کے اندھیروں میں ڈھکیل دیا تھا۔ العیدروس "فاتح جنرل" کے سامنے ہتھیار ڈال کر لوٹا۔ تو قیامت کا سماں تھا۔
ادھر یہ صورت تھی ادھر اعظم جاہ شاہزادہ برار تلخ حقیقوں سے کوسوں دور اپنے عشرت کدے میں صدر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے اور چیف سکریٹری پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ان کی "وزارت" کا اجلاس بلایا جائے۔ انہیں بڑی مشکل سے اس احمقانہ اقدام سے روکا گیا۔
فوجی گاڑیاں اور ٹینک شہر میں داخل ہونا شروع ہو گئے وار فوجی ہیڈ کوارٹر کا محاصرہ کر لیا گیا جنرل چودھری نے چیف سکریٹری اشفاق احمد کو طلب کیا اور بلا کسی تمہید کے کہا کہ لائق علی وزارت کے اہم عہدہ دار ہونے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو حراست میں سمجھیں۔ لیکن متبادل انتظام ہونے تک وہ اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔ انہیں پولیس اور فوجی گارڈ کی نگرانی میں نقل و حرکت کی اجازت تھی مگر گھر جانے کی سختی سے ممانعت تھی۔

جنرل چودھری کے حکم سے ان حضرات کی طلبی ہوئی جن کے ناموں کا اعلان نظام نے منشی سے مفاہمت ہو جانے کے بعد کیا تھا۔ ان میں شاہزادہ برار کے علاوہ العیدروس، زین یار جنگ، ابوالحسن سید علی، راما چاری اور پنا لال پٹی کے نام شامل تھے یہ سب حضرات یہ امید لے کر آئے تھے کہ انہیں پکا وزیر بنا دیا جائے گا۔
ان سب سے خطاب کرنے کیلئے جنرل چودھری جس شان سے شاہ منزل میں داخل ہوئے وہ کبھی برطانیہ کے وائسرائیوں کے دور میں دیکھی جاتی تھی۔
وہ کیوں نہ شان سے آتے؟ آخر حیدرآباد کے فاتح تھے۔
شاہزادہ برار نے اپنی طرف سے بڑی بے تکلفی سے
How are you General? I have seen you after long time
کے الفاظ سے مخاطب کیا۔ موقع کی نزاکت کے پیش نظر یہ محض چھچھورا پن تھا۔ چودھری خفیف سی مسکراہٹ سے منہ پھیر کر آگے بڑھ گئے۔

اپنے خطاب میں جنرل سے صاف الفاظ میں کہا کہ نظام کو وزارت کی تشکیل دینے کا کوئی حق نہ پہلے تھا، نہ کوئی اختیار اب ہے۔ اس نے ملٹری گورنر کی حیثیت سے تمام نظم و نسق سنبھال لیا ہے لیکن تاحکم ثانی وہ لوگ بطور مشیر کام کرتے رہیں گے۔ لیکن انہیں کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہوگے۔ امن عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے فیصلہ ہوا کہ وہ مقامی فوج اور پولیس کی ذمہ داری ہوگی۔

(اقتباس از "زوال حیدرآباد")

what happened in Hyderabad state after the resignation of Mir Laiq Ali?

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں