SC asks Centre , States to act against hate speeches
سپریم کورٹ نے سیاستدانوں اور مذہبی قائدین کی نفرت انگیز تقریروں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آج مرکزی و ریاستی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک و سماج کے بنیادی تانے بانے کو درہم برہم کرنے کا سبب بننے والے ایسے واقعات پر ضابطہ کی کار روائی کیلئے جرائتمندی کا مظاہرہ کرے ۔ عدالت عظمی نے کہاکہ اس قسم کی نفرت انگیز تقریروں کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور مرکز کو چاہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کو ایسی تقریروں سے نمٹنے کیلئے ضابطہ قانون استعمال کرنے کی ہدایت کرے ۔ مرکز کی جانب سے استدال پیش کئے جانے کے موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس التمش کبیر کے علاوہ جسٹس وکرم جیت سین اور جسٹس شرداروند بوبڈے پر مشتمل بنچ نے کہاکہ "ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو عام آدمی کیلئے بہتر نہیں ہیں ۔ ان سے نمٹنے کیلئے چند اقدامات کئے جائیں "۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سدھارتھ یوتھرا نے کہاکہ ایسے واقعات ریاستی حکومتوں کے حدود میں پیش آتے ہیں اور یہ ریاستوں پر منحصر ہے کہ اس قسم کی تقاریر میں ملوث ہونے والوں کے خلاف کار روائی کرے ۔ اس بنچ نے اس تاثر کا اظہار کیا کہ "ایسے افراد کے خلاف کچھ کار روائی کی جانی چاہئے اور آپ میں بھی کچھ ہمت ہونی چاہئے ۔ اس قسم کی تقاریر سے ملک کا بنیادی تانا بانا متاثر ہوتا ہے "۔ یہ بنچ ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی طرف سے درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سیاستدانوں اور مذہبی قائدین کی جانب سے کی جانے والی نفرت انگیز تقریروں پر پابندی عائد کرنے کیلئے رہنمایانہ خطوط وضع کئے جائیں ۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ قانون عوامی نمائندگی میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے تاکہ سیاسی تقریروں میں اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کیلئے چند اختیارات حاصل ہو سکیں ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے رجوع ہوتے ہوئے ایک سینئر وکیل میناکشی ارورہ نے کہاکہ اگر ان تجاویز کو قبول کیا جاتا ہے تو کمیشن تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے خلاف کار روائی کر سکتا ہے ۔ سماعت کے دوران بنچ نے کہاکہ مفاد عامہ کے تحت دار کی جانے والی ایک درخواست سے سیاستدانوں اور مذہبی قائدینک ی جانب سے کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف عوامی غم و غصہ کی جھلک ملتی ہے ۔ بنچ نے کہاکہ قانونی گنجائش موجود ہے جس کے مطابق ریاستی حکومتوں کو ایسے افراد کے خلاف کار روائی کرنا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے 8اپریل کو ایک حکم جاری کرتے ہوئے مرکز کے علاوہ مہاراشٹرا اور آندھراپردیش حکومتوں سے جواب طلب کیا تھا۔ ان ریاستوں میں نفرت انگیز تقاریر کے کئی واقعات پیش آئے تھے ۔ مفاد عامہ کی درخواست پر ایک سینئر وکیل بساوا پاٹل نے بحث کرتے ہوئے استدلال پیش کیا کہ ایسی تقاریر کے ذریعہ مذہب، علاقہ، ذات پات یا مقام پیدائش کو نشانہ بنانا دستوری قواعد کے خلاف ہے ۔ بنچ نے اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن سے بھی جواب طلب کیا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں