دلسکھ نگر بم دھماکوں کی تحقیقات پر سوالیہ نشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-25

دلسکھ نگر بم دھماکوں کی تحقیقات پر سوالیہ نشان

دلسکھ نگر بم دھماکوں کی تحقیقات قانون نافذ کرنے والی مختلف قومی ریاستی ایجنسیاں اپنے اپنے انداز میں کر رہی ہیں ۔ نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی کے قیام کے بعد اس نوعیت کے کیسس کی تحقیقات صرف اور صرف اسی اعلیٰ ایجنسی کے ذریعہ ہونی چاہیے اور اس قیام کے لیے وضع کردہ قانون میں اس کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ نہ صرف کئی قومی تحقیقاتی وخفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے طور پر تحقیقات کر رہی ہیں بلکہ ریاستی و شہری سطح کی بھی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں متوازی طور پر کیس کی چھان بین کرنے لگی ہے اور تحقیقات سے مختلف ایجنسیوں کے عہدیدار رازدانہ انداز میں متضاد اطلاعات و معلومات کا انکشاف کرنے لگی ہیں ۔ اگرچہ مختلف ایجنسیاں اپنے اپنے انداز میں شر پسندوں کا سراغ لگانے میں سرگرداں ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام ایجنسیاں پہلے سے ہی یہ مان کر چل رہی ہیں ہیں کہ بم دھماکہ کرنے والے مسلم دہشت گرد ہیں جبکہ یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس دھماکہ میں بھی امپرووائیز ڈایکسپلوزیوڈیوائس استعمال کیا گیا ہے اور دھماکوں مادہ کے طور پر سوڈیم نائٹریٹ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ مکہ مسجد مالیگاوں ، اجمیر شریف اور سمجھوتہ ٹرین میں بھی جو دھماکے ہوئے تھے ان میں بھی یہی طریق کا اختیار کیا گیا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں ہندوتوا دہشت گردی کے الزام میں ماضی میں گرفتار عدالت سے بری مسلم نوجوانوں کو بھی طلب کرتے ہوئے انھیں کھنگالا جارہا ہے ۔ آیا ہمارے تحقیقاتی عہدیدار کتنے مشتبہ ہندو نوجوانوں سے بازپرس کی ہے اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جیل میں محروس کتنے ہندو ملزمین سے پوچھ گچھ کی گئی ؟ ابتداء سے ہی انڈین مجاہدین پر شک کی سوئی گھماتے ہوئے یہ یقین دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ کارروائی کسی مسلم دہشت گرد گروپ کی کارستانی ہے اور اس سلسلہ میں ایک بار پھر انہی نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن پر ماضی میں دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایک بار پھر انہیں اذیتوں کے المناک دورے سے گزار جانے والا ہے ۔ اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ ریاست خاص کر حیدرآباد کے نوجوانوں کی پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے کے بعد رہا کردیا جائے گا اور ایسا کیا بھی جا رہا ہے مگر پھر کچھ عرصہ بعد دوسری ریاستوں کے مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرتے ہوئے انہیں پناہ دینے کے الزام میں چند حیدرآبادی نوجوانوں کو گرفتار کرلیاجائے گا ۔ تحقیقاتی ایجنسیاں جس نہج پر کام کر رہی ہیں اس سے مسلم برادری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کہیں ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں حکومت سے اس بات کا تو انتقام نہیں لے رہی ہیں کہ مکہ مسجد میں بم دھماکہ کے سلسلہ میں جن مسلم نوجوانوں کو عدالت سے بری ہوجانے پر معذرت خواہی کرتے ہوئے انہیں معاوضہ ادا کیا گیا جس کے باعث ان کے دکھاوے کے حوصلوں و ٹھیس پہنچی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحیح سمت تحقیقات کرتے ہوئے اصل خاطیوں کو پکڑ کر انھیں قرار واقعی سزا دی جائے اور ایک ہی اعلیٰ سطحی ایجنسی کے ذریعہ جامع انداز میں تحقیقات کروائی جائے اور اس میں ریاستی پولیس ایجنسیوں کی مداخلت کو ختم کیا جائے ۔جو غیر ضروری طور پر یکطرفہ انداز میں نوجوانوں کو طلب کرتے ہوئے مسلم برادری میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں ۔

A question mark on the probe of disukhnagar blasts

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں