ہندوستانی مسلمان پر مذہبی منافرت کا غلط الزام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-02-13

ہندوستانی مسلمان پر مذہبی منافرت کا غلط الزام

آندھراپردیش اسمبلی میں مجلس اتحادالمسلمین کے لیڈر اکبر الدین اویسی کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔ نظام آباد اور نرمل کی عدالتوں میں دائر کئے گئے مقدمات میں الزام ہے کہ انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی تقریر کی لہذا ان کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت کار روائی کی جائے ۔ قابل ذکر ہے کہ اکبر الدین اویسی کے خلاف قانونی کار روائی کے اس عمل میں بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کی تمام تنظیمیں پیش پیش ہیں اور حیدرآباد میں سب سے پہلے اس کی کمان بی جے پی کی قانونی سیل کے کروناساگر نامی ایڈوکیٹ نے سنبھالی ہے ۔ سنگھ پریوار کی پریشانی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اور اس کے قائدین نے گذشتہ دنوں حیدرآباد کی باوقار تاریخی عمارت چارمینار کے پہلو میں ایک ناجائزمندر کی توسیع کے کام کی عملی مخالفت کی تھی اور اسے قطعی غیر قانونی سرگرم سے تعبیر کیا تھا۔ اس معاملے میں ریاستی حکومت کا رجحان فرقہ وارانہ قوتوں کی طرف دیکھتے ہوئے مجلس نے کانگریس حکومت کی حمایت سے دستبرداری کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ مجلس اتحاد المسلمین، آندھراپردیش اور اس کی پڑوسی ریاستوں کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے ۔ آندھرا اسمبلی میں اس کے 7ممبران اسمبلی ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں مجلس کی نمائندگی اس کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کرتے ہیں ۔ مجلس کے لیڈران مسلم مسائل اور مسلم حقوق کے تعلق سے کسی قسم کی سودے بازی نہیں کرتے بلکہ مسلم مسائل کو بہت بے باک طریقے سے ایوان میں اٹھاتے ہیں ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مجلس اتحادالمسلمین پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام سنگھ پریوار کے وہ لیڈران عائد کر رہے ہیں جن کی تمام تر سیاست فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی اور قتل و غارت گری سے عبارت ہے ۔ اس معاملے میں بی جے پی لیڈران کس حد تک بڑبولے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ بی جے پی کے نائب صدر مختار عباس نقوی کے ایک حالیہ بیان سے ہوتا ہے ۔ جس میں انہوں نے اکبر الدین اویسی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے الیکشن کمیشن سے مجلس اتحادالمسلمین کی منظوری ختم کرنے کی درخواست بھی کی ہے ۔ مختار عباس نقوی کا کہنا ہے کہ مجلس کے لیڈر ایک مخصوص فرقے کے خلاف نفرت آمیز تقریر کر کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ۔ لہذا ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے ۔ اس قسم کے مطالبات بی جے پی کے دیگر لیڈران وینکیا نائیڈو اور یشونت سنہا نے بھی کئے ہیں ۔ یہ ایک ایسی پارٹی کے لیڈروں کے مطالبات ہیں جس کی تمام تر سیاست فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی، مذہبی منافرت اور قتل و غارت گیری سے عبارت ہے ۔ اس پارٹی میں انہی لیڈروں کو گلے لگایا جاتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کی قتل و غارت گری میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔ بی جے پی میں وہی ہیرو قرارپاتا ہے جس نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہو۔ یہی وجہہ ہے کہ آج نریندر مودی اس پارٹی کے سب سے محبوب لیڈر ہیں ۔ ماضی میں یہ مقام لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ جیسے جارح مسلم دشمن لیڈروں کو حاصل رہا ہے ۔

اکبر الدین اویسی کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس ملک میں مسلمانوں پر جو قانون نافذ کیا جاتا ہے وہ بال ٹھاکرے ، پروین توگڑیا اور ورون گاندھی جیسے لوگوں پر نافذ نہیں کیا جاتا۔ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ اکبر الدین اویسی جیسے لیڈران کو غداری کی سند عطا کی جاتی ہے اور بال ٹھاکرے جیسے لیڈر کو قومی پرچم میں لپیٹ کر 21توپوں کی سلامی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری سفر پر روانہ کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ہاتھ، پاؤں کاٹ لینے کی دھمکی دینے کے باوجود ورون گاندھی کو بی جے پی کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ چنا جاتا ہے اور انہیں آخری درجے کی منافرت اور مسلم دشمنی پھیلانے کے باوجودکوئی سزا نہیں دی جاتی۔
کینسر کا علاج کرتے کرتے خود اس مرض میں مبتلا ہو جانے والے گجرات کے ایک سرجن ڈاکٹر پروین توگڑیا کا کسی اچھے اسپتال میں علاج کرانے کے بجائے آزاد چھوڑدیا جاتا ہے تاکہ وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر مسلمانوں کے خلاف آخری درجے کی نفرت پھیلائے اور فرقہ وارانہ منافرت اور اشتعال انگیزی کی تمام حدیں عبور کرلے ۔ ذہنی اور لسانی کینسر کا یہی پرانا مریض جب حیدرآباد پہنچ کر اسے ایودھیا بنانے کی دھمکی دیتا ہے اور تاریخی چارمینار کو بابری مسجد کے انجام سے دوچار کرنے کی باتیں کرتا ہے تو نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی بی جے پی کے کسی وکیل کے دماغ میں کھجلی ہوتی ہے کہ وہ آگے آ کر یہ کہے کہ چارمینار حیدرآباد کی آن، بان اور شان ہے اسے ملیا میٹ کرنے والے کو منہ کی کھانی ہو گی۔ لیکن جب ایک مظلوم ملت کا فرد عادل آباد کے ایک جلسے میں آدم خور وزیراعلیٰ مودی کا موازانہ اجمل قصاب سے کرتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی کہانیاں بیان کرتا ہے تو پورے ملک میں سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں کی مدد سے طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اکبر الدین اویسی کی تقریر پر ہنگامہ برپا ہے ، وہ دو ہفتے پہلے عادل آباد کے نرمل علاقے میں ہوئی تھی۔ اس دوران الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے لیکن جیسے ہی دہلی میں اجتماعی آبروریزی معاملے پر سردی کا قہر نازل ہوا تو ٹی وی چینلوں کی ٹی آرپی دم توڑنے لگی۔ لہذا انہوں نے پانا کاروبار دوبارہ زندہ کرنے کیلئے اکبر الدین اویسی کی شکل میں ایک آسان شکار ڈھونڈ نکالا اور اس پر یومیہ بحث و مباحثے کا دور شروع ہو گیا۔ سوشل میڈیا اور یوٹیوب کا حوالہ دے کر چیخ و پکار مچنے لگی۔

سوال یہ ہے کہ اکبر الدین اویسی کی تقریر اتنی ہی خطرناک تھی تو اس کا کوئی ردعمل نرمل یا عادل آباد ضلع میں کیوں نہیں ہوا۔ اگر انہوں نے ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کو بھڑکایا تھا تو وہاں دنگا فساد برپا ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن عادل آباد میں کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی جب کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں میں فساد برپا ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکبر الدین اویسی کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے کیلئے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت سوشل میڈیا کو بروئے کار لایا گیا۔ اسی مقصد کے تحت اکبر الدین اویسی کی تقریر یوٹیوب پر ڈالی گئی اور اس کا وسیع پیمانے پر پروپگنڈہ کیا گیا تاکہ اس معاملے میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی جاسکے ۔ افسوس کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے خود ساختہ ٹھیکیداروں نے پروین توگڑیا کی اس زہریلی تقریر کا کوئی نوٹس نہیں لیا جو انہوں نے 11دسمبر کو حیدرآباد میں کی تھی۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ اکبر الدین اویسی کے خلاف ماحول گرم کرنے کیلئے کبھی مختار عباس نقوی، کبھی جاوید اختر اور ان کے بیٹے فرحان اختر کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ جاوید اختر اور فرحان اختر نے ممبئی میں رہنے کے باوجود کبھی بال ٹھاکرے خلاف زبان نہیں کھولی۔ ظاہرہے اس سے ان کے فلمی کاروبار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کون مول لے گا۔ لیکن جاوید اختر اور فرحان اختر ممبئی سے سینکڑوں میل دور حیدرآباد میں رہنے والے اکبر الدین اویسی کو فرقہ وارانہ ہم آنگی کیلئے نہ صرف سے سے بڑا خطرہ قراردیتے ہیں بلکہ اپنی اوقات سے آگے بڑھ کر اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کی قیادت بھی سنبھال لیتے ہیں ۔

کہا جا رہا ہے کہ اکبر الدین اویسی نے اپنی تقریر میں رام چندر جی کی توہین کی ہے ۔ اگر واقعی اکبر الدین اویسی نے رام چندر جی کے بارے میں نازیبا کلمات کہے ہیں جس پر بی جے پی کے ان لیڈران اس حدتک چراغ پا ہیں تو ہم انہیں یاد دلانا چاہیں گے کہ ابھی پچھلے مہینے بی جے پی کے سینئر لیر اور سابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی نے رام چندر جی کو کچھ ایسے الفاظ سے یاد کیا تھا جنہیں ہم یہاں نقل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رام چندر جی کے خلاف رام جیٹھ ملانی کی زہر افشانی کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور ان کے خلاف بی جے پی نے کوئی تادیبی کار روائی بھی نہیں کی۔ لیکن آج یہی لیڈران اکبر الدین اویسی کو سولی پر چڑھانے کامطالبہ کر رہے ہیں ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پروین توگڑیا نے حیدرآبادکے 5صدیوں قدیم دلکش اور خوبصورت چارمینار کو زمین بوس کرنے اور حیدرآباد کو ایودھیا بنادینے کی جو دھمکی دی تھی اس کا ریاستی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جبکہ اکبر الدین اویسی کے خلاف بی جے پی کے دباؤ میں قانونی کار روائی شروع کر دی گئی۔ جب تک مجلس ریاستی حکومت کواپنی حمایت دے رہی تھی اس وقت تک اس کے لیڈران نظم و نسق کیلے خطرہ نہیں تھے لیکن حمایت واپس لیتے ہی وزیراعلیٰ کے لفظوں میں "قانون نے اپنا کام کرنا شروع کر دیا"۔ مجلس اتحاد المسلمین کا قصور یہ ہے کہ وہ آندھراپردیش کے مسلمانوں کے آئینی اور دستوری حقوق کا دفاع کرتی ہے ۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے اور انہیں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے ۔ اگر حیدرآباد کی تاریخ، تہذیب اور تمدن کی علامتی سمجھے جانے والے چارمینار کے تحفظ کیلئے مجلس نے فرقہ پرست طاقتوں سے لوہا لیا ہے تو ریاستی حکومت کو اتنا گراں کیوں گزرہا ہے ؟ مجلس کے قائدین کو چاہئے کہ وہ باطل طاقتوں کے آگے سرنگوں نہ ہونے اور کلمہ حق ادا کرنے کی اپنی شاندار روش پر قائم رہیں ۔

جھکتانہیں تو کاٹ لے سر میرا زندگی
مجھ سے مرے غرور کی قیمت وصول کر

معصوم مرادآبادی

Wrong allegation of religious hatred towards Indian Muslims

1 تبصرہ:

  1. وویسی اور توگڑیا ہندوستانی مسلمان اور ہندو کے گناہ ہیں.

    جواب دیںحذف کریں