ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:18 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-24

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:18


خلاصہ فصل - 16
ابن الوقت کا انگریزی طرز سے متاذی (تکلیف دہ) ہونا

بہرحال ابن الوقت کے بارے میں لوگوں کے اس قسم کے خیالات تھے،ہندوستانی سوسائیٹی میں ان لوگوں کو چھوڑ کر جنھوں نے اس کی وضع کو اپنا لیا تھا،کوئی اس کو پسند نہ کرتا تھا۔انگریزوں میں اعلیٰ درجے کے چند انگریز اس کے خیالات کی قدر کرتے تھے۔اس کے مخالف بہت تھے اور یہ بات ابن الوقت کو بھی معلوم تھی اور یہی خیال اکثر اس کو رنجیدہ کردیتا تھا۔اس کے اپنے بیوی بچے تو سب غدر سے پہلے مرکھپ ہو چکے تھے۔رشتے دار تو رشتے دار اس کو ہندوستانی سوسائیٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا۔اس نے بارہا اپنے رازداروں سے کہا کہ انگریزی کھانا کھاتے اتنی مدت ہوئی لیکن مجھے سیری نہیں ہوئی اور وہ اکثر خواب میں ہندوستانی کھانا کھاتے دیکھتا ہے۔
ایک خدمت گزار کا کہنا تھا کہ ایک بار بخار کی حالت میں ابن الوقت ہندوستانی کھانوں کے نام لے کر روتا تھا۔پلاؤ، بریانی،مونگ کی دال،ماش کی دال،قلمی بڑے اور کباب وغیرہ۔اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ چٹپٹی غذاؤں کو ترس گیا تھا۔وہ اپنی کوٹھی میں تربیت یافتہ نوکروں کو بھاری تنخواہیں دے کر رکھا ہوا تھا۔اس کے نوکر بھی اس کے انگریزی ذوق سے خوب واقف تھے اور پھر ہر مہینے اس کے ہاں دعوت ہوا کرتی تھی۔کھانا تو رات کے نو دس بجے ملتا تھا لیکن تیاری صبح سویرے سے شروع ہو جاتی تھی۔بعض اوقات ابن الوقت گھبرا کر بول اٹھتا تھا کہ میں نے یہ کہاں کی مصیبت جان کو لگا لی ہے۔
یہ تو ہوئی میزبانی کی بات۔مہمانی کی نزاکتیں تو ابن الوقت کے نزدیک اور سردرد کا باعث تھیں۔اگر کسی انگریز نے ابن الوقت کی دعوت نہ کی اور اکثر ایسا ہوتا تو اس کے دل پر ایک صدمہ گذرتا وہ اس کو اپنی ذلت سمجھتا۔نہ صرف انگریزی سوسائیٹی میں بلکہ جی ہی جی میں اپنے نوکروں سے تک شرمندہ رہتا۔اگر کہیں اس کو بلاوا بھی آتا تو یہ فکر ہوتی کہ کس کی کیسی آؤ بھگت ہوئی۔کون لیڈی کس کے پاس بیٹھی۔الغرض انگریزی سوسائیٹی میں داخل ہونے کے خبط نے اس کو بے چین کررکھا تھا۔دن رات اسی خیال میں غمگین رہا کرتا۔جو شخص دنیا میں اتنا غرق ہو اس کو دین داری سے کیا سروکار؟ٖفضول بکھیڑوں سے فرصت ملے تو دین کی طرف توجہ دے۔
ابن الوقت غدر سے پہلے بھی اچھا خاصا خوشحال تھا۔قلعے کی تنخواہ تو تھوڑی تھی لیکن انعام و اکرام وغیرہ ملا کر بہت کچھ پڑ جاتا تھا۔ایک اندازے کے مطابق ماہانہ آمدنی پچاس روپے سے ہرگز کم نہ تھی۔(یہ آج سے سو سال پہلے کی بات تھی۔اس وقت کے پچاس روپے آج کے پچاس ہزار کے برابر تھے!)غدر کے بعد تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔ماشأاللہ ایک دم سے پانچ سو!اس آمدنی پر اچھے سے اچھا کھاتا اچھے سے اچھا پہنتا،غرض امیرانہ خرچ رکھتا۔اور پھر اس پر انگریزوں کا مقابلہ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پورا برس بھی خیریت سے گذرنے نہیں پایا کہ لگا ادھار کھانے۔ جس وقت اس کو جاں نثار نے نہلا دھلا کر پہلے پہل انگریزی کپڑے پہنائے تو کوٹھی کا سازوسامان اور اپنی شان دیکھ کر پھولے نہیں سمایا۔
پھر جب چپراسی نے بڑا لمبا چوڑا لفافہ کشتی میں رکھ کر نئے صاحب کے حضور میں پیش کیا اور اس نے کھول کر دیکھا تو جنرل سپلائر کا بل تھا کچھ اوپر پانچ ہزار کا۔دیکھ کر ہوش اڑ گئے۔لیکن کیا کرتا۔’’فقیر کا غصّہ،فقیر کی جان پر ‘‘کے مصداق دینا ہی پڑا۔نوبل صاحب کا رکھا ہوا ہزار کا تحفہ رکھا ہوا تھا۔بمشکل دو ہزار گھر میں سے فراہم کئے۔باقی رقم کے لئے گڑ والوں کو خط لکھا جن سے ابن الوقت کا پرانا لین دین تھا۔نواب معشوق محل بیگم صاحب کی سرکار کے زمانے سے۔آسامی جاندار تھی انھوں نے بے جھجک روپیہ بھجوا دیا اور اس طرح جنرل سپلائر کا بل ادا ہوا!!!
جس نسبت سے اس کی آمدنی بڑھی تھی،اسی نسبت سے خرچ بھی بڑھتا تو کوئی بات نہ تھی۔لیکن اس نے چادر سے باہر پاؤں پھیلا دئیے۔بنگلہ کا کرایہ، بگھی،پالکی، گاڑی، گھوڑے، دھوبی، سقہ(پانی بھرنے والا)چوکیدار، فراش، باورچی، سائیس، بیرا ان تمام کا خرچ،تنخواہیں اور تنخواہوں کے علاوہ وردی الگ۔مہینے میں دو کھانے کی دعوتیں بھی ہوجائیں تو ساری تنخواہ پر پانی پھر جانا کچھ بات نہیں۔ابن الوقت نے شروع شروع میں تین چار تنخواہیں وقت پر لی ہونگیں۔ اس کے بعد سے تو خزانچی سے معاملہ ہو گیا۔ایک چھوڑ دودو مہاجن دینے والے۔جب ضرورت ہوئی،جس سے چاہا منگوا لیا۔
انگریز بننے کی دھن میں یہ خبر ہی نہ تھی کہ سر پر کتنا قرض چڑھ رہا ہے۔یہ تو اپنے ان خیالات میں مست تھا کہ انگریزکمشنر مجھ کو ’’مائی ڈئیر‘‘(My dear) اور ’’یورز سنسرلی‘‘ (Yours Sincerly)لکھتے ہیں اور یہ کہ چیف کمشنر نے سالانہ رپورٹ میں میری کارگذاری کا شکریہ ادا کیا ہے۔فلاں صاحب نے ایک فیصلے میں میری نسبت لکھا ہے کہ اس کی طبیعت کو قانون سے فطری مناسبت ہے۔فلاں صاحب نے ولایت(Foreign)سے میرا فوٹوگراف منگوایا ہے اور لکھتے ہیں میم صاحب کا تقاضہ ہے ۔اس کے علاوہ ہمارے دو گھوڑے ہمیشہ صاحب لوگوں کی سواری میں رہتے ہیں۔ایک بار ابن الوقت ٹھنڈی سڑک پر جارہا تھا تو کپتان صاحب اور ان کی میم بڑے تپاک سے ملے۔میم صاحب نے اپنے ہاتھ کا پھول اس کی طرف پھینک دیا۔کپتان صاحب بولے کہ میرے پاس پھول ہوتا تو تم کو دیتا۔اس نے کہا کہ آپ کے پاس تو نہایت خوبصورت گلدستہ ہے۔میم صاحب نے اس کا بڑا شکریہ ادا کیا۔ابن الوقت کو اس کا بھی بڑا فخر تھا کہ’’فرینڈ آف انڈیا‘‘نے ایک آرٹیکل میں اس کو مسلمانوں کا مشہور ریفارمر لکھا۔
چند روز بعد ابن الوقت کی توجہ رفارم سے ہٹ کر اس پر ہوگئی تھی کہ انگریزی اطوار میں کوئی چیز چھوٹنے نہ پائے۔مسلمانوں کے نوجوان لڑکے اس کی دیکھا دیکھی،جنھوں نے ذرا سی انگریزی پڑھ لی تھی،اس کے لچھن سیکھتے جاتے۔
ادھر نوبل صاحب کو اپنے علاج کے لئے ولایت جانے کا ارادہ پکا ہوتا گیا۔وہ سلطنت کے کاموں اور غدر کی وجہ سے رک گئے تھے۔جب دونوں کاموں سے فارغ ہوئے تو ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا کہ سمندر کی ہوا کے سوائے ان کی بیماری کی اور کوئی دوا نہیں۔چنانچہ چیف کمشنر نے حکم دیا کہ باقی ماندہ کام وہ صاحب کلکٹر کو دے دیں اور خود نوبل صاحب کا مواد (matter)لے کر فوراً ولایت روانہ ہو جائیں۔چیف صاحب کا یقین تھا کہ جہاز میں ان کی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی اور وہ ولایت جا کر رپورٹ تیار کریں۔ان کے سفر اور ولایت میں قیام کا زمانہ سرویس(Service)میں شمار کیا جائے گا اور ان کو پوری تنخواہ دی جائے گی۔کمشنر نے کلکٹر کو جائزہ(Charge)دلوا کر نوبل صاحب کو ولایت بھجوا دیا۔

Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-18

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں