ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:8 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-28

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:8


خلاصہ فصل - 6
غدر کے بعد ابن الوقت اور نوبل صاحب کی پہلی تفصیلی ملاقات
ابن الوقت نے نوبل صاحب کے ساتھ میز پر چھری کانٹے سے کھانا کھایا

دربار کے مجمع میں نوبل صاحب نے ابن الوقت کو اپنا وقت ملاقات اور مقام بتاد یا تھا۔ دربار کے تیسرے دن ابن الوقت ، ٹامس صاحب کوٹھی پر جاپہنچا۔ وہاں احاطے میں ملاقاتیوں کو سواریاں کھڑی تھیں۔ خوبصورت اور آراستہ صحن اور درختوں کی شادابی ایک سلیقہ مندی ظاہر کررہی تھی۔ نوبل صاحب کے آدمی ابن الوقت کو پہچان گئے۔ سلام کیا اور اتنی خصوصیت ہوئی کہ الگ کمرے میں لے جاکر بٹھا دیا۔ نوبل صاحب نے پہلے سے آئے ہوئے آدمیوں کو دو دو باتیں کر کے ٹال دیا۔ پھر ابن الوقت نے کوٹھی کے ٹھاٹ دیکھے کہ حکومت آمدی کرامت ہے کہ مصداق بنگلے کے سارے کمرے، سجے ہوئے غدر کے دنوں میں کسی کمرے کی چھت تک باقی نہ تھی اب نئے سرے سے تعمیر ہوئی پردہ، چلمن، میز کرسیاں غرض چار چپراسی پانچواں جمعیدار۔ نوبل صاحب کی یہ شان دیکھ کر ابن الوقت نے سوچا کہ غدر کے بعد جو انگریزوں کاٹھاٹ باٹ ہے وہ پہلے زیادہ پائیدار ہے۔ آدھے گھنٹے کے انتظار میں ابن الوقت اکتا گیا شرمندگی سے کمرے میں ٹہلتا کتابوں تصویروں کو دیکھتا رہا۔ چپراستی اور جمعیدار میں ابن الوقت کی بے چینی پر رائے زنی ہونے لگی۔ اتنے میں نوبل صاحب باہر نکلے اور دوسروں کو رخصت کرکے ابن الوقت کے کمرے میں چلے گئے۔ تاخیر سے آنے پر افسوس کیا۔ اور کہاکہ ان کو ابن الوقت سے بہت دیر باتیں کرنی ہیں کھانا میز پر رکھا ہے۔ کھاتے ہوئے باتیں کریں گے۔ ابن الوقت کو پہلے جھجھک ہوئی کہ ایک عیسائی کے ساتھ کھانے میں لوگ اعتراض کریں گے۔ پھر نوبل صاحب کے اصرار پر ایک کرسی پر ڈٹ گیا۔ اتفاق سے اس وقت میز پر کوئی انگریز نہ تھا۔ کیونکہ ابن الوقت نے ناواقفیت کی وجہہ سے کھانا میں ایسی بدتمیزیاں کیں کہ اُس کو خوب ہنسی اڑتی۔ نوبل صاحب سنجیدہ تھے کچھ برا نہ مانا۔ نوبل صاحب کے بتانے پر کانٹا بائیں ہاتھ میں اور چھری دائیں ہاتھ میں لینے کو لے لی لیکن کھانا منھ تک لانے میں نشانہ چوک جاتا اور ناک، ٹھوڈی، کلے کو لگ جاتا۔ اُس کا منہ دیکھ کر دیوالی کا کلیا یاد آجاتی۔ تمام کھانے میں چھ سات رکابیاں بدلی گئیں۔ پڈنگ کانٹے سے کھانے کی تھی، چمچمے سے ہڑپ کرگیا۔ آخر میں ہاتھ دھونے کے پیالے کا پانی اٹھاکر پی لیا جو سب سے زیادہ بے ہودہ حرکت تھی لیکن ابن الوقت سے اتنا بھی نہ ہوا کہ نوبل صاحب سے معذرت کرتا۔ کھانے کے بعد نوبل صاحب نے اپنے لئے تو پائپ روشن کرایا تھا ابن الوقت کی طرف سگریٹ بڑھا دیا اور کہاکہ روم کے علاقے کا تمباکو ہے اس کو پئیںگے تو حقے کو منہ نہ لگائیں گے۔ ابن الوقت کو پہلے ہی سے انگریزوں کی طرف رجحان تھا۔ اب گڑ کھاکے گلگلوں سے کیا پرہیز اس کہاوت کے بموجب وہ سگریٹ پینے لگا۔ باتوں کا سلسلہ جاری ہوا تو نوبل صاحب نے فرمایا کہ چیف کمشنر صاحب کو ابن الوقت کے ذاتی اور خانگی حالات مجھ سے بھی زیادہ معلوم ہیں۔ غدر کے زمانے کا حل اور آپ کے ایک ایک رشتہ دار کے حالات، تاریخ و نام کے ساتھ تحریر میں موجود ہیں۔ لوگوں سے باغیوں کا میل ملاپ، ان کیلئے چندے جمع کرنا، ہتھیاروں،کھانا کپڑے سے ان کی مدد کرنا، دعاؤں میں ان کا ساتھ دینا، سرکاری میگزین کے ہتھیاروں اور سرکاری کالج کی کتابوں کالوٹنا، بغاوت کی ترغیب دینا، نمازیںپڑھ پڑھ کر علی الاعلان انگریزی عملداری کی غارت ہونے کی دعائیں مانگنا، سب تفصیلات شاہی دفتر میں موجود ہیں۔ غرض دلی کے مسلمانوں میں سے شاید ہی کوئی اتوابہ بغاوت سے بچ جائے تو بچ بجائے۔ نوبل صاحب نے ابن الوقت کو بتایاکہ دلی کے مسلمان سرکار کی نظر میں عموماً مشتبہ ٹھہر چکے ہیں۔ اپنی بے تعلقی ثابت کریں اور مزید سے اپنے گھروں میں آباد ہوں۔ حقیقت میں ملکہ معظمہ اور گورنر جنرل نے بڑے صبر سے کام لیا ہے ورنہ عام انگریز غصہ میں بھرے ہیں کہ انگریز کا ایک قطرہ خون کے بدلے ہندوستانیوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں۔ ابن الوقت نے اپنے عزیزوں کی طرف داری اس کی کہ ہمارے خاندان پر بیٹھے بٹھائے تباہی آئی۔ سرکار کو اتنا خیال نہ آیا کہ شاہی خاندان سے وابستہ لوگوں میں اور عام رعایا میں بڑا فرق ہے۔ اور عام رعایا میں میرے عزیز اور خاندان والے بھی آتے ہیں۔ نوبل صاحب نے تسلی دلائی کہ یہی بات جب چیف صاحب کے سامنے پیش کی گئی تو انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور گورنمنٹ ہند کے حکم سے تحقیقات بغاوت کا ایک علیحدہ محکمہ قائم کرکے اس کاکمشنر مجھے (یعنی نوبل صاحب کو) مقرر کرنے کا ارادہ کیا۔ اگلے مہینے کی پہلی تاریخ سے نوبل صاحب اپنا کام شروع کردیں گے۔ نوبل صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیاکہ عام انگریز آپ کی خیر خواہی کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جس کے خاندان میں مذہبی تعصب ہوں اور سرکار انگریزی سے کوئی تعلق نہ ہو اس نے نوبل صاحب کو کیوں پناہ دی؟ ابن الوقت نے جواباً واضح کیا کہ اس نے محض فرض انسانیت کے ناطے پناہ دی اور پھر کسی صلہ یا انعام کی درخواست نہیں کی۔ میں نے اگر کچھ سلوک کیا تو آپ نے ہم لوگوںکو بچانے کا بھی احسان کیا ۔ اس کے بعد نوبل صاحب نے جو انعام میں زمین کھیر پور والی ابن الوقت کو دی گئی اس کے بارے میں بیان کیاکہ بہت زرخیز ہے اور آمدنی والی ہے۔ نوکری کرنے کے مقابل یہ زمین داری فائدہ مند ہے۔ یہ زمین دہلی سے قریب ہے۔ اس کے علاوہ اس گاؤں سے ریل نکلنے والی ہے۔ جس کی بناء پر گاؤں کو ترقی ہوگی۔ لیکن ابن الوقت نے نوکری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہاکہ مجھے نوکری کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگ پشت در پشت انعام و اکرام پر گذر بسر کرنے والے رہے۔ تنخواہیں برائے نام تھیں لیکن تبرک کی طرح انہیں ضرور حاصل کرتے۔ کیونکہ شاہی تنخواہیں اولاد، اولاد کی اولاد پر تقسیم ہوتے ہوئے برائے نام رہ گئی تھیں مگر قلعہ کی سرکار کا برتاؤ نوکروں کے ساتھ ماں باپ جیسا رہا۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں