نام کتاب : حالی کی غزلیں اور قطعات
مرتب : سید تقی عابدی
صفحات : 185
قیمت : 150/ روپے
ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
سنہ اشاعت : 2023
اردو زبان و ادب میں علامہ الطاف حسین حالی (1837-1914)، پانی پتی کی حیثیت کئی نقطۂ نظر سے اہم اور ممتاز ہے۔ انہوں نے شاعری، تنقید اور سوانح نگاری جیسی اہم اصناف میں طبع آزمائی کی، جبکہ تنقید اور سوانح نگاری سے انہیں زیادہ شہرت ملی۔ انجمن پنجاب کے چار مناظموں("برکھارُت"، "نشاطِ امید" اور "حبِ وطن" 1874میں، جبکہ "مناظرۂ رحم و انصاف" 1875میں لکھی) میں شریک ہوکر علامہ حالی نے نئی نظم اور نیچرل شاعری کی سمت و رفتار متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان (1817-1898) نے اپنے خطوط میں محمد حسین آزاد (1830-1910) سے زیادہ حالی کے کلام کو پسند کیا، سراہا اور اسے 'فطری شاعری' کا نام دیا۔ علامہ حالی نے مدوجزر اسلام المعروف بہ مسدسِ حالی لکھ کر مسلمانوں کو اپنے احتساب پر آمادہ کرنے کی مستحسن کوشش کی۔ ہماری کلاسیکی شاعری کے یہ واحد ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے اپنے دیوان میں شامل سبھی اشعار پر (ج) جدید اور (ق) قدیم جیسی علامت لگا کر اپنے سبھی مطبوعہ کلام کی خود ہی نشان دہی کر کے ناقدین کو اس سمت میں محنت و مشقت اور تلاش و تحقیق کرنے سے بچا لیا۔
زیرِ تبصرہ کتاب "حالی کی غزلیں اور قطعات" اردو زبان و ادب کے معروف محقق، ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب کردہ ہے۔ کلاسیکی ادب کی تحقیق و ترتیب میں ڈاکٹر سید تقی عابدی کا نام بہت ممتاز اور نمایاں ہے۔ اس کتاب کو چند عنوانات اور تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حالی کی غزلیہ شاعری پر باضابطہ گفتگو کرنے سے پہلے ان کی تصویر، تحریر کا عکس، سر سید احمد خان(1817-1898) سے ان کے تعلقات پر مبنی ایک خط، شجرۂ نسب اور ان کی حیات و شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر خاطر خواہ روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کا پہلا باب "غزلیاتِ اردو" پر مشتمل ہے۔ باب کے شروع میں فاضل مرتب نے "حالی کی غزل گوئی" کے عنوان سے بہت بہترین اور کار آمد گفتگو کی ہے۔ جس میں قدیم دور (1863-1874) کی 30، جدید دور(1874-1893) کی 86، آخری دور (1893-1914) کی 07 مکمل اور 03 نامکمل غزلیں شامل ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ حالی کی کل غزلوں کی تعداد 123 ہے۔ اور ان میں موجود اشعار کی تعداد 1,261 ہے۔(بحوالہ، حالی کی غزل گوئی، صفحہ نمبر 02)، جبکہ حالی کے کل اردو اشعار کی تعداد 8518، فارسی اشعار کی تعداد 687، عربی اشعار کی تعداد 115 ہے اور ان کے مطبوعہ اشعار کی تعداد 9320 ہے۔(بحوالہ، مولانا حالی کی حیات اور شخصیت،صفحہ نمبر Ixiv)
دوسرا باب "قطعات"(1893-1874)پر مبنی ہے۔ اس میں بھی حالی کے قطعات سے پہلے "حالی کے قطعات کا اجمالی تجزیہ" جیسے عنوان کے تحت گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں۔ "حالی نے مختلف موضوعات پر 67 قطعات لکھے ہیں۔ یہ سارے قطعات مختلف عنوانات کے تحت لکھے گئے ہیں۔ قطعات کے مجموعی اشعار کی تعداد 470 ہے۔ سب سے طولانی قطعہ میں 21 شعر اور سب سے چھوٹے قطعہ میں 2 شعر ہیں۔"(بحوالہ، حالی کے قطعات کا اجمالی تجزیہ، صفحہ نمبر 93)، اس باب میں حالی کے قطعات موضوعات کے لحاظ سے درج کیے گئے ہیں۔ جیسے 7 تنقیدی، قطعات، 8 سیاسی، 19 معاشرتی و اصلاحی، 20 طنزیہ و مزاحیہ، اور 13 قطعات،حکایات و مطائبات پر مبنی ہیں۔ اس طرح سے ان قطعات کی مکمل تعداد 67 ہو جاتی ہے۔
کتاب کا تیسرا اور آخری باب "قطعاتِ تاریخ اور تاریخی جملے مقتبس از قرآن" ہے۔ قطعۂ تاریخ دراصل ایک مشکل لیکن دلچسپ فن مانا جاتا ہے۔ شادی بیاہ، ولادت، کتابوں کی تصنیف، بادشاہوں کی تخت نشینی، فتوحات، خطاب یابی، منصب پر ماموریت اور عمارت کی تعمیر وغیرہ گویا ہر طرح کے اہم واقعات کے سال کو محفوظ رکھنا اس فن کا مقصد ہے۔ اس فن کے ذریعے تاریخ گو ایسا مصرعہ، جملہ یا فقرہ ترتیب دیتا ہے، جس کے حروف کے اعداد جوڑنے سے اس سال کی تاریخ برآمد ہوتی ہے۔ جس برس وہ اہم واقعہ رونما ہوا۔ ایسے مصرعے، جملے یا فقرے کو "مادۂ تاریخ" کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے تقریباً تمام نامور اور قادر الکلام شعراء نے اس فن میں طبع آزمائی کی ہے۔
فی الحال اردو کے شعراء میں بہت ہی کم شاعر ایسے ہیں، جنہیں اس فن سے کماحقہ واقفیت ہے اور وہ تواتر کے ساتھ اس فن میں طبع آزمائی بھی کر رہے ہیں۔ ایسے شعراء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ پروفیسر سید سراج اجملی اور اکادمی برائے فروغِ استعداد اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے منسلک ڈاکٹر واحد نظیر کے نام بہت اہم ہیں۔ اس باب میں بھی حالی کے قطعاتِ تاریخ پیش کرنے سے پہلے"حالی کی تاریخ گوئی" پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی نے قطعاتِ تاریخ میں حالی کی انفرادیت کے بارے میں لکھا ہے۔ "حالی اردو کے وہ پہلے ممتاز شاعر ہیں، جنہوں نے غالب کی تاریخ وفات خود غالب کے مصرعے سے نکالی۔ بعد میں یہ طریقہ عوام اور خواص میں پھیل گیا۔ چنانچہ میر انیس، مرزا دبیر، جوش، اقبال،جگر، وغیرہ کی تاریخ وفات انہی کے مصرعوں سے نکالی گئیں۔"(بحوالہ، حالی کی تاریخ گوئی، صفحہ نمبر، 172)
مجھے اس کتاب کی سب سے خاص بات یہ لگی کہ حالی کے کلام میں استعمال ہونے والے مشکل اور کلیدی الفاظ کے لیے ہر باب کے آخر میں"حواشی" کے تحت ان کی تشریح اور توضیح درج کردی گئی ہے، جس سے کتاب کی اہمیت و افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ یہ توضیح طلباء اور اساتذہ کے لیے یکساں مفید ہے۔ مجموعی طور پر حالی کی غزلیہ شاعری کی تفہیم کے لیے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ حالی کی نظمیں دلچسپی سے پڑھنے والوں کو ان کی نظموں سے متعلق ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب اور قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی سے ہی شائع کردہ دوسری کتاب "حالی کی نظمیں"(2022) کا بھی ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاکہ جدید تحقیق کی روشنی میں ہم حالی کے مکمل کلام سے واقف ہوسکیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ کتاب بھی ڈاکٹر سید تقی عابدی کی سابقہ کتابوں کی طرح قارئین کو ضرور پسند آئی گی۔
محمد اشرف یاسین (دہلی)
Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com
محمد اشرف |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں