یہ آلو ہیں - فکاہیہ از صدف جمال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-14

یہ آلو ہیں - فکاہیہ از صدف جمال

potato-story-light-essay

آلو بھائی! تم کتنے شریف اور ملنسار ہو
انسان ہوتے تو ہر حال میں الیکشن جیت لیتے
تم چاپلوس بھی ایک نمبر کے ہو
سبزیوں کی جان ہو


آلو تم بھی ناں کبھی بیگن کے ساتھ ہوتے ہو ،کبھی گوبھی سے یارانہ کر لیتے ،ہو کبھی مٹر سنگ اترانے لگتے ہو ، کبھی سیم کی محفل میں گھس جاتے ہو تو کبھی پالک سنگ چوپال سجاتے ہو ،اور کبھی ساگ کے ساتھ نظر آتے ہو، کبھی تمہارا دامن لوبیا سے بھرا ہوتا ہے تو کبھی پرول سے کانا پھوسی کر رہے ہوتے ہو۔ آلو تم تو کدو اور لوکی کے سر پر بھی ناچنے لگتے ہو ،آلو یہ کیا تم تو انڈے کے شاہی دربار میں بھی گھس گئے اور انڈا آلو بن بیٹھے، اور یہ کیا تم تو بھری سالن کی پتیلی میں بھی شان سے ٹہل رہے ہو۔


گوشت آیا قیمہ بنا اور تم تو قیمے کی ہانڈی میں بھی پھدکنے لگے ، اف آلو، اوہ آلو تم تو چاول کو چاول بھی نہیں رہنے دیتے اور تہری بنا دیتے ہو، تم یہیں پر کہاں رکتے ہو، کبھی سموسے میں چھپ گئے تو کبھی پراٹھے میں مل گئے اور سننے میں آیا یہ ہے پراٹھا آلو، کبھی ابل گئے تو کبھی بھن گئے تو کبھی تل گئے آلو، کبھی ٹکی آلو تو کبھی کباب آلو، اور جب کچھ نا سمجھ آیا تو بن گئی توری آلو، بریڑ میں مل جائے تو پکوڑے آلو، پیکیٹ سے نکلے تو چپس آلو۔ امی نے گھر پر ابال کر سکھا لئے تو پاپڑ آلو، جب شام میں کچھ نہیں تھا تو کھانے کو تل گئیں پکوڑی آلو، رہ گئی تھی کچوری ان میں بھی آلو۔
حد ہو گئی آخر یہ کون سا طریقہ ہے آج کھانی پڑ گئی دال آلو، بڑی کے شوربے میں بھی کرتے ملے آرام آلو، لو آج گھر پر بنے ہیں سادے آلو، جب کچھ چٹپٹا کھانے کا من تھا تو تم بن گئے کچالو آلو، اور پھر بچا کھچا بن گیا بھرتا آلو۔


لو بھئی لو ابھی تو باقی ہیں پنیر آلو۔۔۔ آلو تم ہر جگہ ہو، ہر بازار میں ہو، ہر ٹھیلے پر ہو ، ہر سبزی کی دکان پر ہو ،ہر پتیلی میں ہر ڈلیا میں ہر فریج میں ہو، ہر سبزی میں ہر سالن میں پائے جاتے ہو ، اکیلے ہو پر الگ الگ ذائقہ رکھتے ہو ،اور الگ الگ ناموں سے بھی بلائے جاتے ہو ، پھر بھی آلو تم ہو آلو، یہ سچ ہے کہ بھنڈی نے کبھی تمہیں منہ نہیں لگایا ، کبھی تمہیں اہمیت ہی نہیں دی، بھری محفل میں نظرانداز کر دیا ورنہ تم تو اس کے ساتھ بھی شاہانہ انداز میں بیٹھے ملتے۔
پتہ ہے بازار میں آج بھی تم سب سےسستے ہو ، ہر خاص محفل میں تم سب سے عام ہو ، کبھی بھی کسی نے بھی تمہیں کوئی خاص بھاؤ نہیں دیا یہ ہر جگہ پہنچ جانے والی عادت سے کبھی بھی تمہیں توجہ نہیں ملی، اور ملتی بھی کیوں؟ بھلا گھر گھر گھسنے والوں کو بھی کوئی توجہ دیتا ہے کیا ؟


ارے آئے ہو آئے ہوں گے، روز ہی آتے ہو ،آلو ہی تو ہو، اگر ہر جگہ بے جگہ تم یوں نہ گھستے تو آج تمہاری بھی عزت ہوتی تمہارے بھی جلوے ہوتے، لوگ شان سے بتاتے بھئی ہمارے یہاں تو آلو بنے ہیں ، ہم نے آلو بنائے ہیں، آج تو آلو بنیں گے ، مگر تمھاری ہر جگہ گھسنے والی عادت نے تمہیں کہیں کا نہیں رہنے دیا ، کہیں کا بھی نہیں! اگر تم کچھ بھاؤ دکھاتے کچھ تاؤ رکھتے، مونچھوں کو تان کے چلتے ،سر اونچا رکھتے ، کہیں جاتے کہیں نہ جاتے ، سب کو نظرانداز کر دیتے جو خود پاس آتا اسے ہی منہ لگاتے، کرسی ڈال کر ،گمچھا باندھ کر شان سے تن کر بیٹھتے تو سبزیوں کے بادشاہ کہلاتے آلو! پر اپنی عادتوں کی وجہ سے بن بیٹھے "بہروپئے آلو"!!

***
صدف جمال (محمودآباد، بارہ بنکی)
ای-میل: sadafjamal104[@]gmail.com

The potato story. Light-Essay by: Sadaf Jamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں