اداکار کو کامیابی کے لیے اپنے بہترین جوہر دکھانا ہوگا - سنی دیول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-11-15

اداکار کو کامیابی کے لیے اپنے بہترین جوہر دکھانا ہوگا - سنی دیول

sunny-deol
سنی دیول (اصل نام: اجے سنگھ دیول، پیدائش: 19/اکتوبر 1956)، معروف بالی ووڈ اداکار دھرمیندر کے بڑے فرزند ہیں جنہوں نے اپنا فلمی کیرئیر فلم "بےتاب" (ریلیز: اگست 1983) سے شروع کیا تھا۔ اپنی بہلی ہی فلم سے بالی ووڈ کی دنیا میں نمایاں مقام بنانے والے اداکار نے بعد کے برسوں میں لاتعداد ہٹ فلموں جیسے ارجن، گھائل، سلطنت، ڈکیت، تری دیو، چالباز، لٹیرے، دامنی، ڈر، گھاتک، بارڈر، غدر ایک پریم کتھا، یملا پگلا دیوانہ کے ذریعے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ بالی ووڈ فلموں میں انہیں ایک غصہ ور اداکار کے طور پر جانا جاتا ہے جو بدعنوانی،ظلم اور غنڈہ گردی کے خلاف لڑتا ہے، ونیز ایک وطن پرست اداکار کے طور پر بھی وہ مشہور ہیں۔
تقریباً تین دہائی قبل، مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ فروری-1988 میں سنی دیول کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے مختلف موضوعات پر اپنے نقطہ نظر سے واقف کرایا ہے۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں یہی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال:
اداکار بننے کا خیال تمہیں کیسے سوجھا؟
جواب:
سب سے پہلے تو میں یہ بات صاف کر دینا چاہتاہوں کہ ایک اسٹار کا بیٹا ہونے پر بھی مجھے اداکار بننے میں پہلے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ اسکول اور کالج کے دنوں میں ایکٹنگ کو میں نے صرف ایک مشغلے کے طور پر اپنایا تھا۔ لندن میں بھی اداکاری کا شوق شروع میں صرف شوق کی حد تک رہا، لیکن پھر وہاں رہتے رہتے پہلی بار یہ خیال میرے ذہن میں سرسرایا کہ کیوں نہ اس مشغلے کو پروفیشن بنایا جائے۔ وہاں کے ہندوستانی حلقوں میں مقبول ہونے کا ارمان مجھے اداکاری کو پیشے کے طور پر اپنانے کے لئے اکسانے لگا۔ چنانچہ میں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دئے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ بہت کم وقت میں مجھے اداکار کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ جب کہ عام طور پر یہ منزل بہت مدت میں ملتی ہے۔

سوال:
تمہارے خیال میں تمہاری کامیابی کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ؟
جواب:
پکا ارادہ اور اس کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال، کھیل ، ورزش وغیرہ ان سے ذہن کو یک سو کرنے اور خود سے باخبر ہونے میں مدد ملتی ہے، احساس اور مشاہدے میں تیزی اور گہرائی آتی ہے۔ ایک اداکار کے لئے ان تمام باتوں کی بڑی اہمیت ہے۔۔

سوال:
کیا تمہیں کسی بھی طرح کی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟
جواب:
زندگی کے بارے میں میرا جو نقطہ نظر ہے اس سے مجھے ان تمام دشواریوں پر قابو پانے کا حوصلہ ملا ہے، جو دوسرے اداکاروں کو پریشان اور ہراساں کر سکتی ہیں۔

سوال:
شروع کی کامیابی کے بعد تمہارے کیریر کی راہ میں کچھ رکاوٹ سی آ گئی تھی ، کیا اس کا سبب یہ تھا کہ تم پر ایک خاص امیج کا ٹھپا لگ گیا تھا؟
جواب:
جی نہیں، یہ بات نہیں، اتار چڑھاؤ تو دنیا بھر میں آرٹسٹوں کے حصے میں آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی آدمی اور اس کی تقدیر میں ان بن ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ جہاں تک امیج کا سوال ہے۔ میری رائے میں گمنام رہ جانے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ آدمی کی کوئی امیج ہو اور وہ اس امیج سے جڑے ہوئے مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ ویسے میری ایک خاص امیج رہی ضرور ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ کل کو میں کسی بنجارے ، کسی ہپی، کسی ٹرک ڈرائیور کے رول میں نہیں آؤں گا۔

سوال:
کامیابی یا ناکامی کا تم پر کیا اثر ہوتا ہے؟
جواب:
میں ہر حال میں اپنی قدر کرتا ہوں، ہر صورت میں خود کو پسند کرتا ہوں۔ دوستوں سے بھی میں یہی کہتا ہوں کہ آدمی کے لئے بہترین راہ یہی ہے کہ کسی بھی سطح پر اپنے آپ کو پہچانے۔ ذہنی جھٹکوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اس لئے کہ میں جسمانی نظام کو طاقتور رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے کسی طرح کا ڈر یا اندیشہ بھی نہیں ستاتا۔

سوال: کیا اپنی پہلی فلم "بے تاب" کی کامیابی پر بھی تم خوشی سے بے قابو نہیں ہوئے تھے؟
جواب:
خوشی سے بے قابو نہیں، صرف خوش ہوا تھا۔ پہلے سے مجھے آس ہی نہیں تھی کہ اس فلم کو اتنے بڑے پیمانے پر سراہا جائے گا۔ اگرچہ یہ میں پہلے سے ہی جانتا تھا کہ فلم بہت اچھی بنی ہے۔

سوال:
کیا اب تم نئی فلمیں چھان پھٹک کر قبول کرتے ہو؟
جواب:
ہم آرٹسٹوں کو سب سے پہلے اس حقیقت سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے کہ ہم کمرشیل فلم میکنگ کی دنیا میں ہیں اور ہمیں اس دنیا کے قاعدے ضابطے ماننے ہوں گے۔ صرف دولت کمانے کے لئے نہیں، کامیابی پانے کے لئے بھی۔ فلم ہم کسی بھی وجہ سے قبول کریں، ہمیں اس میں اپنے بہترین جوہر دکھانے ہیں۔ فلم جیسی بھی بنے ، ہمیں اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے سوا کسی کی بھی طرف ملامت کی انگلی نہیں اٹھانا ہے۔

سوال:
بظاہر تمہیں زندگی کی بہترین نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ ان نعمتوں کی حد تک تمہارا رویہ کیسا ہے؟
جواب:
میں ان کی قدر کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ زندگی کی بہترین نعمتیں حاصل کرنے کے لیے آدمی کو اپنے بہترین جوہر سے کام لینا پڑتا ہے۔ انسانی جسم کی طرح انسانی روح کو بھی ورزش، نشو و نما اور تکمیل درکار ہوتی ہے۔ اسی صورت میں کوئی اداکار اول درجے کے فن کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔

سوال:
لیکن کیا ہمیشہ بہترین کام کے لیے کوشاں رہنا چوٹی پر پہنچنے کا یقینی راستہ ہے؟
جواب:
جو لوگ کام، کھیل، محبت یا زندگی میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، وہ اپنے ارد گرد ایک ایسی حوصلے بھری فضا پیدا کر دیتے ہیں جو ان کی ذات کو نہایت ولولہ خیز، پرکشش اور رنگا رنگ بنا دیتی ہے۔ خوب سے خوب تر کی آرزو میں رہنے کی واقعی بہت اہمیت ہے۔

سوال:
لیکن خوب سے خوب تر کی آرزو میں سب لوگ تو نہیں رہتے۔ پھر تمہیں اس راہ پر کون سی بات لے آئی؟
جواب:
دوسروں سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کی تمنا تو زیادہ تر دلوں میں ہوتی ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی کا ماحول، پرورش کا انداز، خاندانی اثرات یا سماجی بندھن اس تمنا کا گلا گھونٹ دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہتر کام کر دکھانا ایک ذہنی رویہ ہے۔ یہ اپنا انعام خود ہے۔ میری پرورش بہترین ماحول میں ہوئی، خاندان میں سب کی طرف سے بڑھاوا ملا۔ میرے ڈیڈی میرے لیے ہمیشہ ایک آدرش بنے رہے۔ ان سے مجھے بہت امنگ حاصل ہوئی۔ اس کے باوجود میں یہ نہیں چاہوں گا کہ میری منزل، میری راہیں، میری بہتر سے بہتر کر دکھانے کی آرزو، میرے آگے بڑھنے کے ارادے کوئی اور طے کرے۔

سوال:
کیا تمہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ اداکاری کے میدان میں بہت سخت مقابلہ ہے؟
جواب:
میری پہلی منزل یہ ہے کہ اپنی ذات کو کمال کے درجے تک پہنچاؤں۔ ایک اچھا آرٹسٹ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ بہتر فن پیش کرنے کی امنگ اور رہنمائی اسے اپنے اندر سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ فن کے معیار کے معاملے میں اسے پہلے خود کو ہی اطمینان دلانا پڑتا ہے۔ آدمی کسی بھی شعبے میں بہتر کارگزاری دکھانے کی دھن میں ہو، اسے پہلے اپنے ہی اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ کوئی اپنے پیشے میں آگے بڑھنا چاہے یا کاروبار میں، روحانی بلندیوں پر پہنچنا چاہئے یا فن کی بلندیوں پر ، اہم ترین بات یہی ہے کہ وہ آسمان کو اپنی منزل سمجھے اور ثابت قدمی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتا جائے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے نہ مقابلے کا ڈر ہے، نہ مقابلہ کرنے والوں کا۔

سوال:
اچھے سے اچھا کام کر دکھانے کی تمنا تمہارے دل میں از خود پیدا ہوئی تھی یا اس سلسلے میں تمہارے ماں باپ نے رہنمائی کی تھی؟
جواب:
کوئی شخص کسی ڈھنگ سے اعلیٰ کام کر دکھانا چاہتا ہے ، یہ دوسروں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس راہ میں کامیابی ملی ہے یا ناکامی اس کا علم بھی دوسروں کو نہیں ، صرف اسی کو ہو سکتا ہے۔

سوال:
اچھا، مان لو تم انجام کار ناکام رہے تو؟
جواب:
اصل اہمیت دھن، لگن اور کوشش کی ہے۔ پھر کوشش عادت بن جاتی ہے اور اس کی جھلک کام میں ہی نہیںِ باقی ساری زندگی میں بھی آ جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ اکثر اچھا ہی نکلتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا اور اسکول میں پڑھتا تھا تو میری کوشش رہتی تھی کہ فٹ بال کے کھیل میں دوسروں سے بازی لے جاؤں ، اوسط فاصلے کی دوڑ میں بھی میرا یہی حال رہا۔ اور اس عمل میں اپنے بارے میں میں نے بہت کچھ سیکھا۔
کھیل میں مقابلے کے وقت آدمی کو اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہوتا ہے۔ جب وہ دوڑتا ہوتا ہے تو اس وقت اسے اسے پتہ چلے کہ اس میں تھکن کے باوجود آگے بڑھتے رہنے کی ہمت اور حوصلہ ہے ، جوڑ جوڑ کے ٹوٹنے کے احساس کے باوجود رکنے کے لالچ میں نہیں آنا ہے، مات کھانے کے اندیشے کے باوجود رفتار کو مدھم نہیں کرنا ہے تو قسمت ضرور اس کا ساتھ دے گی۔ میں چاہتا تھا کہ جو کام کروں، ٹھیک طرح کروں ، اپنے کام میں پوری طرح خود کو سمو دوں، ہر کام اپنی ہی تسکین کے لئے کروں ، صرف دوسروں سے شاباشی یا واہ واہ حاصل کرنے کے لئے نہیں۔ جب آدمی ایسا کام کرتا ہے جو اس کے خیال میں اس کے لئے اچھا ہے تو اس پر یہ بھید کھلتا ہے کہ محض اتفاق سے اس نے کامیابی کا راز بھی دریافت کر لیا ہے۔

سوال:
تو کیا تم اب مطمئن ہو؟
جواب:
اعلیٰ کارگزاری اسی کا نام ہے کہ جب تک آدمی کو اطمینان نہ ہوجائے وہ اپنی کوشش جاری رکھے۔ مگر فن کے میدان میں یہ منزل شاید کبھی نہیں آتی۔ مجھے تو ابھی بہت دور جانا ہے۔ ابھی تو صرف شروعات ہوئی ہے ، میں ہمیشہ آپ ہی اپنا پیچھا کرتا رہوں گا، خود ہی اپنے آپ سے آگے بڑھتا رہوں گا۔

سوال:
جب تم انگلینڈ میں تھے تو سب سے زیادہ تم پر کس کا اثر پڑا؟
جواب:
مجھے سب سے زیادہ مشہور پیانو نواز پیڈروسکی کی ایک بات نے متاثر کیا، کسی نے ان سے پوچھا کہ وہ کتنا ریاض کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اگر میں ایک دن ریاض نہیں کرتا تو مجھے اس کا احساس ہو جاتا ہے، اگر دو دن ریاض نہیں کرتا تو ناقدوں کو اس کا احساس ہو جاتا ہے۔ اگر تین دن ریاض نہیں کرتا تو سارے سننے والوں کو اس کا احساس ہو جاتا ہے۔ پیڈروسکی کی اس بات کو میں نے اسی وقت گرہ میں باندھ لیا تھا جب میں نے اداکاری کو اپنا کیریر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

سوال:
کیا کامیابی کبھی کبھی تم پر نشہ بن کر بھی چھاتی ہے؟
جواب:
بہتر کام کرنے کا اپنا الگ مزہ ہے۔ اس کی وجہ سے دل بوجھل نہیں ہوتا، طبیعت پر اداسی طاری نہیں ہوتی۔ کام ٹھیک طرح ہو جائے تو یقیناً اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سلطنت یا ڈکیت ناکام ہوئی تھی تو بھی اپنی کارگزاری کی حد تک مجھے پورا اطمینان تھا۔

سوال:
حالات نے تمہارے لئے جو شکل اختیار کی ہے ، کیا تم اس سے خوش ہو؟
جواب:
نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر روز کسی ایسے کام میں بازی لے جانے کے لئے دو ایک گھنٹے صرف کروں جسے کر دکھانے کی مجھے ہمیشہ سے آرزو رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مجھے اپنی حدیں بھی معلوم ہیں۔ پہلے اعلیٰ کارگزاری کی خواہش مجھے بہت بےچین رکھتی تھی، کیونکہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے میں نے راستے نہیں اپنائے تھے۔ اب یہ کیفیت نہیں ہے۔ آج میں خوش ہوں، آج کمال کی طرف بڑھنے کی اپنی طلب کو بھی میں اصلیت سے بڑھ کر نہیں آنکتا۔ لیکن اس کے ساتھ کمال حاصل کرنا آج بھی میری منزل ہے۔ کمال کی دھن میں نہ رہنے سے دماغ اسی طرح ڈھیلا ڈھالا اور لجلجا ہو جاتا ہے جیسے رگ پٹھے ورزش نہ کرنے کی صورت میں ہو جاتے ہیں۔ پھر زندگی میں کوئی امنگ ،کوئی ولولہ نہیں رہتا۔ نہ کسی مقصد کا احساس باقی رہتا ہے۔ نہ کوئی کارنامہ کر گزرنے کی خوشی۔

سوال:
لیکن کمال کی طرف بڑھنے کی آرزو کے لئے امنگ تو تمہیں اپنے ڈیڈی سے ہی ملی ہوگی؟
جواب:
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ڈیڈی میرا آدرش ہیں۔ لیکن اعلیٰ کارگزاری کے بارے میں ہر شخص کا اپنا الگ تصور ہوتا ہے۔ یہ تصور آدمی کی اپنی ذات سے ابھرتا ہے۔ اس کے ساتھ آگے بڑھنے کی سماجی روایت، بھرپور کوشش اور کامیابی بھی اس تصور کے پنپنے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح کام کرنے کا ضابطہ آدمی اپنے لئے خود بناتا ہے اور اپنی مرضی سے اس کی پیروی کرتا ہے۔ کوئی افسر، کوئی آقا، کوئی استاد، کوئی ادارہ، کوئی سرپرست یا اس کا اپنا باپ بھی اسے اس پر مسلط نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہی راہ سب سے اچھی ہے۔

سوال:
تمہارا بنگلہ تو چھوٹے موٹے جمنازیم (ورزش گاہ) جیسا نظر آتا ہے۔ کیا تمہیں صحت مند رہنے کا شوق جنون کی حد تک ہے؟
جواب:
یہی سمجھ لیجیے۔ میں روزانہ کافی ورزش کرتا ہوں۔ ہر شام کو اسکواش کھیلتا ہوں۔ بیڈمنٹن بھی پابندی سے کھیلتا ہوں۔ اس کے علاوہ دوڑ بھی لگاتا ہوں۔ اپنے جسم کو ٹھوس اور لچکیلا، متناسب اور سڈول بنائے رکھنے کے لیے میں سارے جتن کرتا ہوں۔

سوال:
اپنا پہلا شاٹ دیتے وقت تم کچھ نروس تو ضرور ہوئے ہوگے؟
جواب:
بالکل بھی نہیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ میرا سارا دھیان ایک ہی بات پر مرکوز رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ شاٹ کے لیے میں جتنا بہتر کام کر سکتا ہوں، کر دکھاؤں۔ فوراً ایک ہی پل میں کمال حاصل کرنے کی خواہش میں نے کی ہی نہیں تھی۔ میں جو کام بھی ہاتھ میں لیتا ہوں، ساری توجہ اس کی نذر کرتا ہوں، چاہے وہ شاٹ دینے کا کام ہو یا خط لکھنے کا یا چند پونڈ فالتو وزن سے چھٹکارا پانے کا۔ جلدبازی مجھ پر کبھی سوار نہیں ہوتی۔ ہر کام میں مرحلہ وار کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کمال حاصل کرنے کے لیے ابھی کافی وقت ہے۔ ابھی تو ساری عمر پڑی ہے۔

سوال:
شراب سگریٹ وغیرہ کا بھی کچھ شوق ہے یا نہیں؟
جواب:
قطعی شوق نہیں۔ ان چیزوں سے میں ہمیشہ دور رہتا ہوں۔ پینے کے لیے میری حد صرف لسی ہے، جو مجھے پسند بھی ہے۔ ہمارے گھر میں سب سبزی خور ہیں۔ گوشت ہمارے یہاں نہ پکتا ہے، نہ کھایا جاتا ہے۔ تازہ سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ ہمارے یہاں پنیر کا بھی ذخیرہ رہتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی سادہ آٹے کی جگہ میدہ کی روٹی ضرور کھا لیتا ہوں تاکہ پنجابی روایت کچھ تو باقی رہے۔

سوال:
تو کیا تم کام کو خبط کی طرح ہر وقت حواس پر سوار رکھنے کے قائل ہو؟
جواب:
جی نہیں۔ مجھے زیادہ کام کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ جتنا عزیز مجھے کام ہے، اتنی ہی عزیز فرصت بھی ہے۔ فرصت کے وقت گھر پر رہنا اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا خاندان میری ساری کائنات ہے۔

سوال:
اچھا یہ بتاؤ، گھر سے باہر بھی کیا کسی سے تمہارا جذباتی لگاؤ ہے؟
جواب:
اگر آپ کی مراد عشق بازی سے ہے تو یہ خانہ میرے یہاں نہیں ہے۔ میں کسی بھی ایسے لگاؤ کو پسند نہیں کرتا جس سے گھریلو زندگی پر برا اثر پڑے۔ مجھے کسی سے بھی لگنے لپٹنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ سے لگے لپٹے۔ مجھے یہی فکر رہتی ہے کہ کچھ لڑکیاں میرے دوستانہ رویہ کا کوئی دوسرا مطلب نہ نکال بیٹھیں اور مجھ سے زیادہ نزدیکی کی آس اپنے دل میں نہ جگا لیں۔ مجھے اپنے اسی رویہ کی بدولت اپنی مرضی کے مطابق جینے کی زیادہ آزادی میسر آتی ہے۔ میں تو پارٹیوں یا رات گئے کی دعوتوں میں نہیں آتا جاتا۔ دس بجنے سے پہلے پہلے میں عام طور پر لوٹ آتا ہوں۔ اگر کسی پارٹی میں جانا ہی پڑے تو وہاں ایک وقت میں ایک ہی شخص سے بات چیت کرنا مجھے پسند ہے تاکہ دوسروں کی دخل اندازی اور غیرضروری سوالوں کے بغیر اطمینان سے باتیں ہو سکیں۔

سوال:
کیا ڈمپل کپاڈیہ سے بھی تمہارے کوئی خاص قسم کے تعلقات نہیں ہیں؟
جواب:
میرا مزاج ہی ایسا ہے کہ سب لوگوں میں کوئی خوبی، کوئی اچھائی، کوئی دلکشی تلاش کر لیتا ہوں۔ ہر جگہ اور ہر شخص میں خوب صورتی کی جستجو میں رہنا میری عادت ہے۔ ڈمپل بلاشبہ بہت حسین ہے۔ لیکن اس تعریف سے کوئی اور معنی نکالنا سراسر زیادتی ہوگی۔

سوال:
کبھی گھر کے کاموں میں بھی دلچسپی لیتے ہو؟
جواب:
میں گھر کے صرف ایسے کام کرتا ہوں جو زیادہ مشکل ہوں اور جن میں زیادہ زور اور طاقت لگانے کی ضرورت ہو۔ باقی تمام گھریلو کاموں کی حد تک میرا خیال ہے کہ عورتیں ہی انہیں بہتر طور پر کر سکتی ہیں۔ پھر اب تو پہلے کے مقابلے میں گھریلو کام ان کے لیے زیادہ آسان بھی ہو گئے ہیں۔ گھریلو کاموں کے لیے اتنی بہت سی مشینیں اور آلے جو آ گئے ہیں۔

سوال:
تم اتنے ڈسپلن کے پابند کیسے بن گئے؟
جواب:
یہ سب ماں باپ ۔۔ خاص طور سے میرے ڈیڈی کی تربیت کا فیض ہے۔ آج کل زیادہ تر ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی نرمی سے پیش آتے ہیں۔ مگر میرا معاملہ مختلف رہا۔ میں کبھی کوئی غلطی کر بیٹھتا تھا تو ڈیڈی ایسی ڈانٹ پلاتے تھے کہ میرے ہوش ٹھکانے آ جاتے تھے۔ ایک بار میں اسکول جانے کے بجائے سڑک کے چھوکروں کے ساتھ گولیاں کھیلتے ہوئے پکڑا گیا تو ڈیڈی نے سب کے سامنے ہی میری خوب پٹائی کر ڈالی۔ اس روز کی اور اس جیسے دوسرے بیسیوں مواقع کی سخت گیری بعد کی زندگی میں میرے بہت کام آئی۔ ڈسپلن کا جو سبق ذہن میں اس طرح بچپن میں نقش ہوا تھا، آج بھی میں اسے بھولا نہیں ہوں۔

سوال:
کیا یہ صحیح ہے کہ تم بہت جلد بھڑک اٹھتے ہو؟
جواب:
جی ہاں، مگر صرف اس وقت جب دوسرے غلطی پر ہوں۔ مثلاً ایک مرتبہ کچھ لوگ میرے ڈیڈی کا ذکر بڑے بیہودہ ڈھنگ سے کر رہے تھے، میں نے سنا تو مارے غصے کے میرا برا حال ہو گیا اور میں نے ان کی اچھی طرح مرمت کر ڈالی۔ ڈیڈی کے خلاف اگر کوئی شخص بکواس کرتا ہے تو میرا خون کھول اٹھتا ہے۔

سوال:
کیا ابھی تک تمہارے غصے کا یہی حال ہے؟
جواب:
نہیں، آج کل میں کسی حد تک صبر سے بھی کام لے سکتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنی امیج کچھ یاس انگیز بنا لی تھی۔ ان دنوں مجھے یہی پریشانی رہتی تھی کہ کسی طرح میری انا کو ٹھیس نہ لگے۔ اس نکتہ کو سمجھنے میں مجھے کافی دن لگے کہ میرا کیرئر میری انا کی صرف ایک جھلک ہے۔ ویسے آج بھی میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مجھے غصہ اب آتا ہی نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں غصہ کو برا بھی نہیں سمجھتا۔ غصہ اچھی اور صحت مند اندرونی کیفیت کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں غصہ، تخلیقی صلاحیت کے دبانے اور کچلے جانے یا اسے اظہار کی راہ نہ ملنے کے خلاف ہوتا ہے۔ اس طرح کے غصے کا مطلب یہ پوچھنا ہے کہ جواب دو، یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے؟

سوال:
اپنے ڈیڈی (دھرمیندر) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
جواب:
وہ بہت حساس، درد مند، محبت کرنے والے اور چاہے جانے کے قابل انسان ہیں۔ وہ میرے باپ تو ہیں ہی، دوست بھی ہیں۔ ان کے اچھے اداکار ہونے میں تو شبہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان کے ساتھ کام کرنا مجھے سچ مچ بہت اچھا لگتا ہے۔
سنی دیول کے چند یادگار فلمی نغمے:
پربتوں سے آج میں ٹکرا گیا (فلم: بےتاب)
جب ہم جواں ہونگے جانے کہاں ہونگے (فلم: بےتاب)
میں تیری محبت میں پاگل ہو جاؤں گا (فلم: تری دیو)
سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے (فلم: دل لگی)
***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: فروری 1988

Sunny Deol, an interview from Feb.1988 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں