میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:30 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-30

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:30



چلتے چلتے میں نے اردو سے کہا۔ ملکۂ وقت کی خدمت میں میری ایک درخواست ہے۔ اگر اسے قبولیت عطا ہو جائے تو یہ خادم تازیست ممنون احسان رہے گا۔
کیا ہے وہ درخواست؟ اردو نے مسکرا کر پوچھا۔
میں چاہتا ہوں کہ آج صبح کی چائے آپ میرے ساتھ نوش فرمائیں۔
کیا آپ میرے ساتھ چائے پینا پسند کریں گی؟
ہاں ہاں کیوں نہیں ؟ مگر یہاں ہوٹل کہاں ہے ؟
دیکھئے۔۔ ۔ وہ ہے غریب نواز ہوٹل!
میں نے سڑک کے ختم پر بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے ایک دوسری سڑک بل کھاکر یوں نکلتی تھی جیسے شاخ سے شاخ پھوٹتی ہے۔
غریب نواز ہوٹل۔۔ ۔ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
جی ہاں۔ یہ ہوٹل آپ کے قابل تو نہیں، لیکن اس مقام پر اور کوئی سلیقے کی ہوٹل بھی تو نہیں جہاں میں آپ کو لے جا سکوں۔
نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ تم نے مجھے غلط سمجھا۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ اس ہوٹل کا نام غریب نواز ہوٹل کیوں ہے ؟آخر یہ کس طرح غریبوں کو نوازتی ہے ؟
میں نے کہا، وہ اس طرح کہ یہ ہوٹل روٹی، چاول اور سبزی کے ساتھ دال فری دیتی ہے۔ اس کے علاوہ شہر سے چھپنے والے تمام اخبارات یہاں پڑھنے کو مفت مل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر روزنامہ چلم گزٹ، بجلی، طوان، ڈنکا اور رات دن وغیرہ۔
بہت دلچسپ نام ہیں ان کے۔۔ ۔
بلا شبہ۔۔ ۔
تو پھر چلو، خوشی خوشی اس نے تیز قدم اٹھاتے ہوئے کہا۔
بچہ یہاں آؤ۔۔ ہوٹل میں، میز کے قریب دو کرسیوں کو کھینچتے ہوئے میں نے آواز دی۔
ایک دس سالہ لڑکا قریب آیا جس کے چہرے پر معصومیت سے زیادہ بے بسی اور مظلومیت کی ایک داستان لکھی ہوئی تھی۔ وہ آ کر اس طرح خاموش کھڑا ہو گیا جیسے پوچھتا ہو، میرا کوئی قصور!
بچے کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے میں نے اردو سے پوچھا۔
حکم ہو تو ناشتہ منگوالوں۔ گرم گرم کھچڑی کے ساتھ چٹنی فری!
نہیں نہیں۔۔ ۔ میں صرف چائے پیو گی۔ تم چاہو تو کچھ کھالو۔
میرے عشق میں خاصے دبلے ہو گئے ہو، شریر نگاہوں سے اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں میں بھی چائے پیوں گا۔
چائے کی ایک چسکی لے کر میں نے اخبار چلم گزٹ پر ایک نظر ڈالی۔
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا، کوئی خاص خبر؟
ہاں ہے تو۔
تو پھر سناؤ۔
تازہ خبر یہ ہے کہ آج صبح دس بجے سے اردو تحریک کا ایک زبردست جلوس شہر کے مختلف محلوں گلی کوچوں اور سڑکوں سے ہوتا ہوا میونسپلٹی آرٹس اینڈ سائنس کالج کے میدان میں جمع ہو گا۔ پھر وہاں سے ایک منظم جلوس مارچ پاسٹ کرتا ہوا راج بھون روانہ ہو گا جہاں گورنر کی خدمت میں ایک میمورنڈم پیش کیا جائے گا۔ تمام عاشقان اردو سے اپیل کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہو کر جلوس کو کامیاب بنائیں اور تحریک کے ہاتھ مضبوط کریں۔
واہ، واہ!! اس نے تالی بجائی اور کہا، دیکھا تم نے مابدولت کی شان اور حمایت کیسا جلوس نکالاجا رہا ہے۔ اس جلوس میں شریک ہونے کے لئے ما بدولت نے تم سے چلنے کو کہا تھا۔ میری گھڑی سات بجا رہی تھی اور تمہاری گھڑی میں پونے آٹھ تھے۔ اس لئے مجھے تشویش ہوئی تھی۔ اور میں نے پوچھا تھا کہ تمہاری گھڑی کہیں تیز تو نہیں، کیا بھول گئے ؟
اس حقیر فقیر کی یہ مجال کہ ان مکالموں کو بھول جاؤں جو میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ لیکن مجھے دکھ ہے کہ سرکار عالیہ قدر نے مجھ کم ترین کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ جلوس کے تعلق سے ارشاد فرمائیں کہ یہ ملکہ وقت یعنی آپ کی شان میں نکالا جا رہا ہے۔ ورنہ میں یعنی آپ کا خانہ زاد تو اپنی کم عقلی میں یہ سمجھتا تھا کہ کوئی خاص بات ہے جسے آپ مجھ سے مخفی اور مستور رکھنا چاہتی ہیں !
بکو مت۔۔ ۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ اب وقت نہیں ہے، چلو اب ہم بھی جلوس میں شامل ہو جاتے ہیں، ہم خود بہ نفس نفیس ملاحظہ کریں گے کہ ما بدولت کے تعلق سے کیا ہورہا ہے !


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-30

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں