مورخہ 20 ڈسمبر 2018ء کو گزٹ میں وزارت داخلہ کی طرف سے اس سے متعلق اعلامیہ شائع کیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق وزارت داخلہ کے سائبر سیکورٹی انفارمیشن محکمہ نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 69(1) کے تحت 10ایجنسیوں کو یہ اختیار دیا ہے۔ وزارت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں ان دس ایجنسیوں کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے۔
جن دس ایجنسیوں کو زبردست اختیارات دیئے گئے، وہ انٹلیجنس بیورو [Intelligence Bureau]، نارکوٹکس کنٹرول بیورو [Narcotics Control Bureau]، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ [Enforcement Directorate]، سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیس [Central Board of Direct Taxes]، ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹلیجنس [Directorate of Revenue Intelligence]، سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن [Central Bureau of Investigation]، نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی [National Investigation Agency]، کابینٹ سکریٹریٹ را [Cabinet Secretariat (RAW)]، ڈائریکٹوریٹ آف سگنل انٹلیجنس [Directorate of Signal Intelligence] (صرف جموں و کشمیر، شمال مشرق اور آسام کے سرویس علاقوں کیلئے)، اور دہلی کمشنر آف پولیس [Commissioner of Police, Delhi] ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بالکلیہ پہلی مرتبہ حکومت نے تحقیقاتی اداروں کو کسی کمپیوٹر کے مواد کو اسکان کرنے کا اختیار دیا ، جو محض دو کمپیوٹروں کے درمیان ڈیٹا کے تبادلے کی حد تک محدود نہیں ہے۔ اس نئے حکمنامہ کی رو سے کمپیوٹر استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کو تحقیقاتی ایجنسیوں سے مکمل طور پر تعاون کرتے ہوئے انھیں تکنیکی اعانت دینا ہوگا، بشرطیکہ وہ رابطہ کریں۔ اگر متعلقہ شخص تعاون نہ کرے تو اسے سات سال جیل اور رقمی جرمانہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مرکزی حکومت کے ان احکام کے خلاف حزب مخالف جماعتیں برہم ہو گئی ہیں۔ جمعہ کو اپوزیشن قائدین نے پارلیمنٹ کے باہر ایک اجلاس کیا اور حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کی۔ کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ یہ سنگین مسئلہ ہے۔ اس حکم کے ذریعہ بی جے پی ملک کو زیر نگرانی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ حکومت نے اس فرمان کو خفیہ طریقے سے منظور کیا ہے۔ ہم اجتماعی طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ عام احکام نہیں ہیں، یہ غیرجمہوری احکام ہیں۔ رازداری کا حق ایک بنیادی حق ہے۔ اس حکم کے ذریعہ اس حق پر راست حملہ کیا گیا ہے۔"
کانگریس کو اس مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں عام آدمی پارٹی، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل، ٹی ایم سی سمیت کئی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ سبھی جماعتیں وزارت داخلہ کے ان احکام کی مخالفت کررہی ہیں۔
MHA Authorises 10 Central Agencies to Snoop into Citizens' Computers
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں