میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:17 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-03

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:17


میٹنگ میں کھلبلی مچ گئی!
ہر شخص چہ میگوئیاں کرنے لگا جیسے کہتا ہو، یہ کون شخص ہے جو معززین کی محفل میں شر پیدا کر رہا ہے!
جناب صدر نے کہا:
افسانہ نگار صاحب! اس موضوع پر گفتگو ہم پھر کبھی کریں گے ، میں چاہتا ہوں کہ اس وقت ہم صرف اس موضوع پر غور کریں، جس کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں۔ ورنہ اس میٹنگ کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
"جی ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے۔"
زوالوجی کے ایک پروفیسر نے جو میرے مقابل بیٹھے ہوئے تھے، اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولے:
"یہ ایجنڈے میں کہاں ہے؟ ہم کو ایجنڈے کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھانا چاہئے۔"
"کیا ایجنڈے ویجنڈے کی بات کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا، آپ ہی بتائیے۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔آپ!!
ایک ایک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے میں نے پوچھا:
کیا آپ کے لڑکے اور لڑکیاں اردو پڑھتے ہیں؟
پروفیسر نے ذرا نرم لہجے میں اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا:
افسانہ نگار جی! ہم اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے گفتگو کریں گے لیکن اس وقت تو وہ ایجنڈہ۔۔۔۔
میں نے کہا:
پروفیسر صاحب! آپ بات کو ٹال رہے ہیں، میرا سیدھا سادہ سا سوال ہے اور آپ بھی سیدھا سادہ سا جواب دیجئے۔ لیکن آپ جواب نہیں دے سکتے ۔ ایک آپ ہی کیا؟ یہاں بیٹھے ہوئے معزز ارکان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ جواب دے سکے ۔ کیوں کہ آپ سب اپنے بچوں کو پبلک اسکولوں اور انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں میں پڑھواتے ہیں ۔ داخلہ نہ ملنے کی صورت میں ہزاروں روپے چندہ دے کر نشست خریدتے ہیں ، تاکہ آپ کے بچے بڑے ہوکر افسر بنیں۔ اور اردو پڑھنے والے بچے چپراسی۔۔۔۔ اور آپ سب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ قول و فعل میں تضاد کہاں ہے؟ یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے ؟ آپ کو یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ اردو کی وکالت کریں۔۔۔
منی ہال پر سناٹا چھا گیا۔ لیکن بجلی کے گھومتے ہوئے پنکھے کی آواز آ رہی تھی ۔ گھوں گھوں،، گھوں گھوں!!! جیسے وہ بھی میری آواز میں آواز ملا کر ان سب سے پوچھ رہا ہو: بتاؤ۔۔۔۔ بتاؤ!!
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے کہا:
جہاں یہ بات میں آپ سے پوچھ رہا ہوں وہیں اپنے تعلق سے یہ بات واضح کر دوں کہ میرے بچے اردو پڑھتے ہیں، لکھتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اپنی اپنی جماعتوں میں انگریزی اور مقامی زبان تلگو کے علاوہ اردو کے امتحان میں اچھے نشانات کے ساتھ پاس کرتے ہیں۔ اسی لئے مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ آپ سے پوچھوں۔۔۔۔
اس ساری بحث میں اردو کی ایک محترمہ پروفیسر صاحبہ اور خانگی ڈگری کالج کے ایک لکچرر صاحب خاموش مسکراتے ہوئے بیٹھے تھے جیسے ان کی قوت سماعت بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ اور وہ دونوں بات کو سن نہیں پا رہے تھے ۔ یونیورسٹی کی محترمہ پروفیسر صاحبہ چائے کے چمچے سے کھیل رہی تھیں۔ اور لکچرر صاحب بار بار اپنی ٹائی کی گرہ کو ڈھیلا کر رہے تھے۔ جیسے ان کے گلے میں پھندا پڑ گیا ہے ۔ اور وہ سانس لینے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے گلے کو ٹائی سے آزاد کر لیا اور اسے تہہ کر کے اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لیا اور اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈال کر جیسے ہاہو کرنے لگے۔

صدر نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا:
وقت بہت ہو چکا ، براہ کرم آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم ایجنڈے کے مطابق اپنی گفتگو جاری رکھ سکیں ۔
میں نے اپنی نشست چھوڑتے ہوئے کہا:
صدر صاحب! میں کون ہوں اجازت دینے والا۔ آپ ہی مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں!
اس کے ساتھ ہی میں ہال سے باہر نکل گیا۔ کوئی چاہے تو اسے واک آؤٹ کہہ لے یا کوئی اور نام دے دے۔ میرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا !

یہ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔
وہ دن اور آج کا دن !
میں سوچتا ہوں انجمن وظیفہ خواران اردو کی طرف سے پھر مجھے کوئی دعوت نامہ نہیں ملا۔ حالانکہ اس عرصے میں درجنوں جلسے منعقد ہوئے اور سالانہ کانفرنسیں بھی ہوئیں۔ اس میں شرکت کے لئے اضلاع اور دوسرے شہروں سے کئی ڈیلی گیٹ آئے، اس خصوص میں حیدرآباد کے ایک بزرگ مرحوم شاعر کی ایک بات مجھے یاد آتی ہے۔ اس شاعر کا کہنا تھا کہ :
انجمن بڑے خلوص اور عقیدت کے ساتھ ہر سال اردو زبان کا عرس کرتی ہے!


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-17

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں