طبع آزاد پر قید رمضاں بھاری ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-17

طبع آزاد پر قید رمضاں بھاری ہے

ramzan-1439-2018
رمضان کی آمد آمد ہے۔
ابھی سے ہی رمضان کا پورا منظر نامہ ،گھر اور بازار کی رونق سامانیاں، مسجد اور گھر سے جڑی گہما گہمی نظروں کے سامنے رقص کر رہی ہے۔ سحری اور افطار کے وقت کے پر کیف مناظر ، نماز و تراویح کے روح پرور لمحات دامان دل کو کھینچ رہے ہیں۔ ماہ مبارک کی فضیلتیں تو اس معیار کی ہیں کہ بندے کو عبادت و ریاضت میں ڈوب جانا چاہیے، لیکن ہمارا معاملہ بھی رسمی اور ظاہری سطح کا حامل ہو گیا ہے۔
روح تقوی کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ اخلاص و للہیت بھولی بسری شئے ہو گئی ہے۔ بس کسی طرح چند ظاہری پابندیوں کو گوارا کر لیا جاتا ہے۔ بقول شاعر
تیس دن کیلیے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

اب دیکھیے ناں ایمان کا تقاضہ ہیکہ رمضان کی آمد ہماری خوشی و مسرت میں اضافہ کر دے اور مکمل بشاشت قلب کے ساتھ اسکا استقبال کیا جائے، لیکن بہتیروں کے لیے رمضان کی آمد بار خاطر ہے ،گرانبار ہے۔ خیر و نیکی کی آمد بہار انھیں غم و الم میں مبتلا کر جاتی ہے۔ پورا مہینہ وہ سوگوار رہتے ہیں۔ رمضان کی قید و بند انھیں بہت کھلتی ہے۔ ایک ایک پل انکے لیے پہاڑ ہوتا ہے جیسے تیسے رمضانی زندگی کے بوجھ کو وہ پورے مہینے اٹھائے پھرتے ہیں۔ بس عید کے چاند کا انتظار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہہ گئے ہیں۔
طبع آزاد پر قید رمضان بھاری ہے
تمھیں کہدو یہی آئین وفاداری ہے

یہ درحقیقت عبادت و ریاضت خیر و بھلائی کے کام انجام دینے کا مہینہ ہے، لیکن اکثریت نے اسے کھانے پینے اور مختلف قسم کے پکوانوں کا مزہ لینے کا مہینہ بنا لیا ہے۔ انواع و اقسام کی نعمتیں افطار میں کھانے کے بعد سلسلہ رک نہیں جاتا بلکہ تراویح کے بعد بھی رات بھر لذت کام و دہن کا دور چلتے رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مخصوص ڈشوں کا لطف لینے کیلیے دور دراز کا سفر بھی کیا جاتا ہے۔ رات تو اپنی ہے جتنا زیادہ جاگیں گے اتنا دن میں سو سکیں گے۔ پھر یہی ہمارے بھائی بڑی شان اتقا سے کہتے ہیں ہم سحری میں صرف ایک کھجور اور پانی لیتے ہیں یا بس ایک کیلا اور پورا دن اسی طرح گزار دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب پوری رات کھاتے پیتے گزری ہے تو سحری میں مزید کی گنجائش کہاں رہیگی۔
خواتین کا تذکرہ اگر اس سیاق میں نہ کیا جائے تو بڑی ناسپاسی ہوگی۔ ظہر کے بعد ہی سے یہ کچن کا محاذ سنبھال لیتی ہیں۔ اور نان اسٹاپ غروب آفتاب تک افطار کی تیاریوں میں جٹی رہتی ہیں۔ بسا اوقات مطلوبہ مقدار میں تیاری نامکمل ہونے کے سبب آدھی افطاری کچن میں کھڑے کھڑے کرنا پڑتی ہے تب کہیں جاکر سارے لوازمات تیار ہو پاتے ہیں اور ہمیشہ کچھ نئی ڈشوں کا تجربہ بھی کرتی رہتی ہیں ۔
کھانے پینے کےساتھ اس مہینے کو سونے جاگنے کا مہینہ بنا لیا گیا ہے۔ سحری کیلیے جگے ہوئے مومن کو فجر کے بعد دنیا کی کوئی طاقت سونے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ وہ علی طول ظہر یاظہر سے کچھ پہلے تک سوتے رہتا ہے اور ظہر کے بعد تو قیلولہ نبی کی سنت ہے اوررمضان میں سنت پر عمل نسبتاً زیادہ ضروری ہے۔
ادھر جوں جوں عید قریب آتی جاتی ہے عید کی خریداری اور تیاری کا ماحول شباب پر آنے لگتا ہے۔ٹھیک اس وقت جب آخری عشرے کی طاق راتوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے، مومنین و مومنات کی توجہ خریداری اور تیاری پر مرکوز ہوتی ہے۔ آغاز رمضان کا جوش وخروش بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوتا ہے۔ چند روزوں ، نمازوں اور تراویح و تلاوت کے بعدحرارت ایمانی سرد پڑ جاتی ہے۔ جذبہ تقوی کہیں اور آرام فرما ہو جاتا ہے۔ پھر آخری عشرے میں ایک بار دینی سطح پر تلاطم دیکھنے کو ملتا ہے۔ دعوی ہیکہ قیام اللیل اور شب قدر کی شب بیداری ہے۔ لیکن یہاں بھی رات کی ابتدا مسجد اور تلاوت و نوافل سے کی جاتی ہے، پھر پوری رات وقت گزاری، سیر وتفریح اور لذت کام و دہن ہی راس آتا ہے ۔
اور عید سے پہلے کی چند راتیں شب قدر کے بہانے بازاروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ آخر عید آ ہی جاتی ہے اور ہم خودساختہ دینداری سے نجات پا جاتے ہیں۔ وہ تقوی جسے رمضان اور روزے کا ماحصل کہا گیا تھا اسے اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی فرصت کسے ہوتی ہے؟
سوال یہ ہیکہ کیا ہمارا طرز عمل عید ورمضان کے شان تقوی سے میل کھاتا ہے؟
کیا ہماری لگی بندھی دینداری اس مقام بلند تک ہمیں پہنچائے گی جورمضان کا ٹارگیٹ ہے؟
بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ رمضان کی ظاہر داری پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ اور اپنی زندگی اور طرز عمل کو ماہ مقدس سے ہم آہنگ کرکے عظیم خسارے سے بچانا ہوگا۔ ورنہ ہم اس وعید کے مصداق قرار پائینگے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کو پا کر جو اپنے عمل وعبادت سے مغفرت کا سامان نہیں کرسکا وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوا۔

Welcome Ramzan 1439. Article: Rasheed Salafi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں