فتنہ انکار حدیث - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-30

فتنہ انکار حدیث

fitna-inkar-e-hadith
فتنہ انکار حدیث
یہ فتنہ آج کا نہیں بلکہ یہ بہت پرانا فتنہ ہے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن لوگوں نے احادیث کی مخالفت میں مختلف آراء پیش کیں ۔۔۔
کسی نے کہا : جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ قبول نہیں کی جائے گی
کسی نے کہا حدیث خبر واحد قبول نہیں ہوگی
کسی نے کہاجو حدیث امام کے قول کے خلاف ہوگی وہ رد کر دی جائیگی ۔
کسی نے کہا ابو ہریرہ ، انس بن مالک ، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم یہ راوی غیر فقیہ ہیں لہٰذا ان کی روایت کردہ احادیث مسترد ہوں گی۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کی بیان کردہ اکثر احادیث ایک مخصوص فقہ کے مسائل کے خلاف ہیں اس لئے ان احادیث سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت رہ گئی تھی کہ ان کو ہی غیر فقیہ کہہ دیا جائے)۔

اس طرح حدیث کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا۔ جن لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب صحیح البخاری (الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ و سنۃ و ایامہ ) کا نور بصیرت سے مطالعہ کیا، ان پر یہ بات مخفی نہیں کہ جب امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دونوں سوال ان کے ذہن میں موجود تھے، کیونکہ فتنہ انکار حدیث صرف بیسویں صدی کا تحفہ نہیں۔ انکار حدیث کی نوعیت اور دلائل میں فرق ہوسکتا ہے اور ہے مگر بعض حلقوں کی طرف سے حدیث پر نظر کرم امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے ہی موجود تھی اسی لئے دیگر فقہاء و محدثین کے برعکس امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اس بات کا تعین کیاکہ حدیث کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
کیا یہ بھی دین کا حصہ ہے؟
اورکیا اس کے انکار سے دین کا انکار لازم آتا ہے یا کہ محض تاریخ ہے؟
اگر یہ محض تاریخ ہے یا عقل کے تابع ہے تو پھر اس کیلئے قریہ قریہ اور شہر شہر پھرنے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر یہ دین نہیں ہے تو ایسی خدمت سرانجام دینے کا کیا فائدہ جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
لہٰذا صحیح بخاری میں احادیث جمع کرنے سے قبل امام بخاری رحمہ اللہ نے ضروری سمجھا کہ پہلے یہ واضح کر دیا جائے کہ حدیث وحی کا حصہ ہے اور اصولی طور پر حدیث کو وحی نہ ماننا کفر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوحی وحی کا بیان ا س کے بعد باب باندھا ہے:
کیف کان بداء الوحی رسول اللہ ﷺ۔
اس باب میں بداء کا معنی وحی اور وحی کا معنی دین ہے۔ لہٰذا اس باب کا معنی یہ ہے کہ "دین کی وحی رسول اللہ ﷺ پر کیسے نازل ہوئی تھی"۔
اس باب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے بتایا کہ ایک وحی دین وہ تھی جو بصورت قرآن نازل ہوتی تھی نبی ﷺ نے فرمایا: یہ وحی مجھ پر ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں ہوتی ہے اور فرشتے نے جو کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ جب یہ وحی نازل ہوتی تو شدید سردی میں بھی جب فرشتہ واپس جاتا تو آپ ﷺ کی پیشانی پر پسینے کے قطرات ہوتے تھے۔
وحی کی یہ صورت قرآن کے نزول کی ہے یعنی وہ وحی جو رسول اللہ ﷺ پر بصورت کتاب نازل ہوئی جسے "قرآن مجید" کہاجاتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قرآن کی صورت میں جو وحی نبی ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس کے علاوہ بھی وحئ دین آپ ﷺ پر نازل ہوتی تھی؟
اور کیا اس وحی کا انکار کفر ہے کہ نہیں؟
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: قرآن کے علاوہ بھی آپ ﷺ پر وحی دین نازل ہوتی تھی اور اس کا انکار کفر ہے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے:
اے پیغمبر ! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد نبیوں پر بھیجی اور جس طرح ابراہیم علیہ السلام ، اسمعٰیل علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، اور یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر بھیجی او رعیسیٰ علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، یونس علیہ السلام ، ہارون علیہ السلام ، اور سلیمان علیہ السلام پر بھیجی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی۔
(سورۃ النساء )

اسی آیت میں انبیاء کا نام لے کر بتایا کہ محمد ﷺ پر دین کی وحی اسی طرح نازل ہوئی جیسے ان انبیاء سابقہ پر نازل ہوئی ان انبیاء میں کئی نبی ایسے بھی ہیں جن کو کوئی کتاب نہیں ملی جب کہ وہ دین کے داعی تھی رسول تھے اور اس غیر کتابی وحی دین کا قوم نے انکار کیا تو پوری قوم کافر ہو گئی۔ نوح علیہ السلام نے کہا:
((رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً))
میرے رب، زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑ۔ (سورہ نوح)

یہ لوگ جن کو نوح علیہ السلام نے کافر کہا اور ان کی تباہی و بربادی کے لئے اپنے رب سے دعا کی، کون لوگ تھے؟ وہی جنہوں نے نوح علیہ السلام پر غیر کتابی وحی کے نزول کا انکار کیا اور اللہ عزو جل نے فرمایا :
اے پیغمبر! ہم نے تم پر اسی طرح وحی نازل کی جس طرح نوح علیہ السلام پر نازل کی۔
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پر غیر کتابی وحی دین بھی نازل ہوتی تھی اور اس کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح قوم نوح نے کفر کیا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی ﷺ پر بھی غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا ہوا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں ایک گنوار شخص کھڑا ہوا کہنے لگا: یارسول اللہ ﷺ اللہ کی کتاب کے موافق میرا فیصلہ کر دیجئے۔
پھر اس کا حریف کھڑا ہوا کہنے لگا: سچ کہتا ہوں یارسول اللہ ﷺ کتاب اللہ کے موافق اس کا فیصلہ کر دیجئے اور مجھ کو اجازت دیجئے تو میں مقدمہ کے واقعات بیان کروں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا بیان کرو۔
وہ کہنے لگا: میرا بیٹا اس کے پاس نوکر تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا تیرا بیٹا سنگسار کیاجائے گا میں نے سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کو دے کر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا پھر جو میں نے عالموں سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا اس کی بیوی سنگسار کی جائیگی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے پڑیں گے ایک سال کے لئے جلاوطن ہوگا۔
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ﷲ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے موافق کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تو واپس لے لے اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے پڑیں گے ایک سال کے لئے جلاوطن ہوگا اور انیس تو ایسا کر صبح کو اس کی بیوی کے پاس جا کر اس سے پوچھ، اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اس کو سنگسار کر ڈال۔
انیس رضی اللہ عنہ صبح کو اس عورت کے پاس گئے اس نے زنا کا اقرار کیا۔ انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر ڈالا۔
(بخاری کتاب اخبار الامار حدیث 2127جلد3)

غور فرمائیں اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کیا۔ کیا یہ وحی نہیں تھی اگر یہ وحی نہیں تھی تو کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں کہا: میں تم میں کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا؟
یہ غیر کتابی وحی دین تھی جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوتی تھی۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو تورات اس وقت ملی جب آپ بنی اسرائیل کو فرعون مصر سے نجات دلا کر دریائے نیل عبور کر چکے تھے:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِ مَا اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَآءِرَ لِلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ
اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ۔
(سورۃ قصص:43)

اور فرعون کافر اس وقت ہی قرار دیاگیا جب ابھی تورات نازل نہ ہوئی تھی۔ فرعون اس لئے کافر قرار پایا کہ اس نے موسی علیہ السلام پر جو غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی اسکا انکار کیاتھا، اس نے توریت کا انکار نہیں کیا تھا کہ تورات تو اس کے غرق آب ہونے کے بہت بعد ملی۔ موسی علیہ السلام اس وقت نبی تھے جب انہیں کوہِ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف ملا، اس وقت نبی تھے جب فرعون کے پاس گئے، اس وقت نبی تھے جب بنی اسرائیل کو لے کر دریا عبور کیا، حالانکہ تورات موجود نہ تھی۔ یہ وحی دین تھی جو تورات سے قبل بھی موسی علیہ السلام پر نازل ہوتی تھی۔
اللہ نے فرمایا: ہم نے اے پیغمبر تم پر بھی اسی طرح کی وحی نازل کی جس طرح موسی علیہ السلام پر نازل کی۔
تورات موسی علیہ السلام کو ملی وہی صاحب کتاب نبی تھے۔
ہارون علیہ السلام کس وحی کی بناء پر نبی تھے ؟
شعیب علیہ السلام ، یونس علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام ، اسمعٰیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام نبی تھے ان کے پاس تو کوئی کتاب نہ تھی، پھر ان کی نبوت کسی وحی کی بنیاد پر تھی اور ان کے مخالفین کیوں کافر تھے؟
ان سب انبیاء کی طرح رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی جو کتاب کی شکل میں بھی ہے اور غیر کتابی صورت میں بھی ہے، دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
جس طرح عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: میں ڈرتا ہوں کہیں بہت زمانہ گزر جائے اورلوگ یہ کہنے لگیں کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا، پھر اللہ نے جو حکم ٹھہرایا ہے اس کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں۔ دیکھو سن لو جو محض مسلمان ہو کر زناکرے اور زنا پر گواہ قائم ہو جائیں یا عورت کا حمل ظاہر ہو یا زنا کرنے والا اقرار کرے تو اسکو رجم کرینگے۔
سفیان نے کہا: مجھے تو یہ حدیث اسی طرح یاد ہے۔ سن لو رسول اللہ ﷺ نے زانی کو رجم کیا اور ہم نے بھی آپ ﷺ کے بعد رجم کیا ۔
(بخاری جلد سوم ۔کتاب المحاربین حدیث 1733)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی ایک وحی کا انکار پورے دین کا انکار ہے۔ اور یہ بات کفر ہے۔ جس طرح فرعون اور قوم نوح علیہ السلام غیر کتابی وحی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار پائے تھے۔
اس وضاحت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری لکھی تاکہ پڑھنے والا اسے محض تاریخ کی کتاب نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے دین اسلام کی بنیاد اور اصل سمجھ کر پڑھے اور ان احادیث کی اطاعت کرکے نجات پائے۔

'اسلام میں حدیث کی اہمیت' نامی اس کتاب کے شائع کرنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اس بات کی وضاحت کی جائے کہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بغیر دین پر عمل نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات سمجھنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے ۔
(آمین یارب العالمین )

ماخوذ از مقدمۂ کتاب: اسلام میں حدیث کی اہمیت
مصنف: حماد اقبال

The refutation of hadith is against the shariah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں