حیدرآباد آثار قدیمہ - قطب شاہی اور آصف جاہی دور میں تعمیر کردہ سرائیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-11

حیدرآباد آثار قدیمہ - قطب شاہی اور آصف جاہی دور میں تعمیر کردہ سرائیں

hyderabad old city news - حیدرآباد پرانے شہر کی خبریں
2017-aug-11

رہنما نیوز بیورو
nampally saraaye
قطب شاہی دور میں تعمیر کردہ سرایوں کے علاوہ آصف جاہی دور میں مسافروں کے ٹھہرنے کے لیے تعمیر کی گئی سرائیں ان دنوں اپنا وجود بچانے ارباب اقتدار کی توجہ کی محتاج ہیں۔
یہ سرائیں حیدرآباد آنے والے سیاحوں اور تاجروں کے قیام کے لیے تعمیر کی گئی تھیں۔ ان میں سب سے بڑی سرائے آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان کے دور میں حیدرآباد دکن ریلوے اسٹیشن (نامپلی ریلوے اسٹیشن) کے قریب 1919 کے دوران تعمیر کی گئی تھی۔ یہ سرائے پہلی جنگ عظیم کی یادگار کے بطور تعمیر کی گئی تھی جسے ابتدا میں "صلح سرائے" بھی کہا جاتا تھا۔ پانچ ہزار (5000) مربع گز کے رقبے پر تعمیر کردہ اور اس وقت کی کرنسی کے مطابق ایک لاکھ کی لاگت سے تعمیر کی گئی 'نامپلی سرائے' میں 54 کمرے ہیں۔ یہ سرائے متحدہ ریاست آندھرا پردیش کا سرکاری گیسٹ ہاؤس بھی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سرائے کے کئی کمروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور وہاں اب کوئی نہیں ٹھہرتا۔
حیدرآباد کے نامور مورخ جناب ایم۔اے۔قیوم کے مطابق ٹرین کے ذریعے بیرونی مقامات سے حیدرآباد آنے والے لوگ رات کو سرائے میں قیام کرتے تھے اور دوسرے دن صبح کسٹم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ان کے سامان کی چیکنگ کے بعد ہی وہ شہر میں گھوم پھر سکتے تھے جو اس زمانے میں افضل گنج کے آس پاس تک ہی محدود تھا۔
انہوں نے بتایا کہ نامپلی سرائے کے نزدیک ہی ایک 'تانگہ اسٹانڈ' ہوا کرتا تھا جہاں سے لوگ شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے تانگہ کرایہ پر لیا کرتے تھے۔ سب سے خاص بات یہ تھی کہ سرائے میں قیام بالکل مفت ہوتا تھا۔
حیدرآباد کے آثار قدیمہ کے تحفظ کی جہدکار مسز انورادھا ریڈی کا کہنا ہے کہ نامپلی کی اس تاریخی سرائے کا ہر حال میں تحفظ کیا جانا چاہیےکیونکہ اب سرائے کی حالت نہایت خستہ ہو چکی ہے۔ جس کی فوری مرمت کی طرف اگر ضروری توجہ نہ دی جائے تو اس عمارت کے ڈھے جانے کا خطرہ ہے۔
جہاں نامپلی سرائے دور آصفیہ کی یادگار ہے وہیں شہر حیدرآباد میں قطب شاہی دور کی تعمیر کردہ دیگر سرائیں بھی موجود ہیں۔ جن میں علی آباد میں واقع 14 کمروں پر مشتمل سرائے بھی ہے جس کے بیشتر حصے میں اب دکانیں قائم ہیں۔ یہ سرائے علی آباد دروازہ کے متصل ہی تعمیر کی گئی تھی۔
اسی سرائے کی مانند مسجد میاں مشکل کے قریب واقع 'پرانا پل سرائے' بھی تھی جو 17 ویں صدی میں پرانا پل کے قریب تعمیر کی گئی تھی۔
جامع مسجد افضل گنج کے نیچے بھی ایک ریسٹ ہاؤس تھا جو آہستہ آہستہ کمرشیل مارکٹ میں تبدیل ہو گیا اور اس کے کمروں میں آج مختلف قسم کی دکانیں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ حیات نگر، عنبر پیٹ، حکیم پیٹ، شیخ پیٹ اور میسرم میں بھی کچھ اور سرائیں موجود تھیں جن کے آثار اب بھی باقی ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بہت جلد شہر میں موجود آثار قدیمہ پر پراجیکٹس رپورٹ تیار کی جائے گی۔ جبکہ سپرنٹینڈنٹ انجینئر (پراجیکٹس) محکمہ بلدیہ حیدرآباد (جی ایچ ایم سی) نے بتایا کہ نامپلی سرائے کو حیدرآباد میٹرو ریل کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حیدرآباد میٹرو ریل نامپلی سرائے کی قدیم شان و شوکت کو باقی رکھتی ہے یا اس کی جگہ کوئی نئی ملٹی اسٹوری عمارت یا شاپنگ مال قائم کیا جاتا ہے؟!

Hyderabad Archaeology, Hyderabad rest houses of Nizam era
Hyderabad news, old city news, hyderabad deccan old city news, news of old city

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں