سکھ اور دکھ کے 70 سال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-16

سکھ اور دکھ کے 70 سال

india-independence-70-years
ملک کی آزادی کے جشن کی تقریبات میرے ذہن میں اس دور کی یادیں تازہ کردیتی ہیں جو میں نے اپنے آبائی قصبہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہونے ہی والا تھا کہ ملک کے بٹوارے نے سارا منصوبہ چوپٹ کردیا۔ اس کی وجہ سے مجھے وہ جگہ چھوڑنی پڑی جہاں میری پیدائش و پرورش ہوئی تھی ۔ جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل پر اداسی چھاجاتی ہے ۔ لیکن یہ بات اندھیرے میں امید کی کرن سے کم نہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں ذاتی تعلقات عموماً متاثر نہیں ہوئے ۔ میرے والد کو جو پیشے سے ڈاکٹر تھے ، سیالکوٹ سے منتقل ہونے کا خیال آتے ہی ایسا کرنے سے روک دیاجاتا تھا۔ ایک دن میری ماں اور انہوں نے لوگوں کو بتائے بغیر سفر کا ارادہ کرلیا۔ چھپ چھپا کر وہ ریل گاڑی میں بیٹح گئے ۔ کچھ ہی دیر بعد علاقے کے نوجوانوں نے انہیں پہچان لیا اور سیالکوٹ نہ چھوڑنے کی درخواست ان سے کی۔
میرے والد نے کہا کہ وہ بس اپنے بچوں سے ملنے دہلی جارہے ہیں جو پہلے سے وہاں ہیں ، اور جلد ہی واپس آجائیں گے ۔ لیکن وہ نوجوان انہیں سفر کرنے سے روکنے پر مصر رہے ۔ انہوں نے بڑی بے تکلفی سے مجھے بتادیا کہ قریبی نرووال پل پر تمام مسافروں کو جان سے مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اور واقعی یہی ہوا ، اگلے دن وہ نوجوان ہمارے گھر آئے اوریہ بتایا کہ اب سفر کیاجاسکتا ہے کیوں کہ اس کا اطمینان کیا جاچکا ہے کہ سفر کرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ انہوں نے نہ صرف پیدل پل پار کرنے میں میرے بیمار ماں باپ کی مدد کی ، بلکہ سرحد تک چل کر انہیں رخصت بھی کیا ۔ میں چند روز کے لئے سیالکوٹ میں ہی رک گیا تھا اور واگہہ آنے کے لئے میں نے سڑک کا راستہ اختیار کیا ۔ ایک برگیڈیئر نے جس کا تبادلہ ہندوستا ن ہوا تھا، چلنے سے پہلے میرے والد کے پاس آکر کہا تھا کہ اگر کوئی خدمت درکار ہو تو بتائیں ۔ والد نے میری طرف دیکھتے ہوئے برگیڈیئیر سے کہا کہ اسے سرحد پار کرادیجئے ، میں نے سامان سے بھری ہوئی جیپ کے پیچھے بیٹھ کر سفر کیا۔ سیالکوٹ امرتسر جانے والی شاہراہ سے ذرا ہٹ کر ہے، لیکن میں یہ دیکھ کر دلبرداشتہ ہوگیا کہ سڑک پر ہزاروں لوگوں کا ہجوم تھا۔پاکستان کی طرف جانے والے لوگوں کی تو پتلی سی قطار تھی اور بڑی تعداد ہم لوگوں کی تھی جو امرتسر جارہے تھے۔ ایک بات تو یقینی تھی کہ واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں ہے ۔ سڑتی ہوئی لاشوں کا تعفن پھیل رہا تھا۔ لوگوں کے بیچ سے جیپ کو جگہ بنانی پڑ رہی تھی ۔
ایک جگہ لہراتی داڑھی والے ایک سکھ نے ہمیں روک کر یہ درخواست کی کہ اس کے پوتے کو دوسری طرف سرحد پار لے جائیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنی پڑھائی ابھی پوری کی ہے اور میں کسی بچے کی پرورش کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں بس اسے پناہ گزیں کیمپ میں چھوڑ دو اور ہم جلد ہی اس کے پاس پہنچ جائیں گے ۔ میں نے معذرت کرلی ۔ آج بھی اس کا ملتجی چہرہ نظروں میں گھومتا ہے ۔ سیالکوٹ میں ایک امیر مسلمان غلام قادر نے اپنا ایک بنگلہ کھلوا کر میرے والد سے کہا کہ جب تک چاہیں اس میں رہیں اور جب تک شہر میں امن ہونے کا یقین ہوجائے ۔ وہ بنگلہ بذات خود پناہ گزیں کیمپ بن گیا تھا اور ایک وقت تو وہاں کے مکینوں کی تعداد سو ہوگئی تھی ۔ غلام قادر ہم سب کو راشن تقسیم کرتے اور دودھیا پابندی سے ہمیں دودھ پہنچاجاتا تھا۔جب میں نے سرحد پار کی تو میرے پاس ایک تھیلے میں صرف دو پائجامے اور ماں کے دیے ہوئے120روپے تھے ۔ لیکن بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگری رکھنے کی وجہ سے مجھے اعتماد تھا کہ اپنی زندگی بنالوں گا۔ پھر بھی مجھے اپنے والد کی طرف سے فکر تھی، جنہیں جالندھر میں نئے سرے سے پیر جمانے تھے اور چند ہی دنوں میں وہ مریضوں میں بہت مقبول ہوگئے اور صبح و شام ان کے اس مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی ۔ میں دہلی آگیا ، جہاں میرے ماما دریا گنج میں رہتے تھے ۔ جامع مسجد کا علاقہ بہت قریب تھا۔ یہاں مجھے سستا غیر نباتی(نان و یجیٹیرین)کھانا مل جاتا تھا۔ یہیں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو مجھے اردو اخبار انجام کے دفتر لے گئے اور اس طرح میں نے صحافت کے پیشے میں قدم رکھا۔ باقی لمبی کہانی ہے ۔
میں طول کلامی میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کیا ملک کا بٹوارہ اس لئے ضروری تھا کہ دونوں طرف کے دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔ اس وقت کی تلخی اب بھی قائم ہے اور دونوں طرف کے عوام مسلسل عداوت کی فضا میں جی رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان نے تین جنگیں لڑی ہیں۔1965،1971اور1999میں۔ آج بھی عداوت اور مسلح سپاہیوں کی آوازوں سے گونجتا رہتا ہے جو بندوق کا کھٹکا دبانے کے لئے پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں ۔ ہم71واں یوم آزادی مناچکے ہیں، مگر اپنے تصور کے مطابق نرم سرحدں کے بجائے ہمیں خار دار تار اور دن رات کی فوجی نگرانی ملی ہے ۔ طویل سرحدوں پر در اندازی کی سطح میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ دونوں نممالک ایک دوسرے سے بات چیت کے روادار نہیں ہیں۔ وزیر داخلہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ اگر اسلام آباد در اندازوں کی حوصلہ افزائی کرے گا تو اس سے کوئی گفتگو نہیں کی جائے گی۔پاکستان کہتا ہے کہ در اندازی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے اور در اندازوں کی نقل و حرکت پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔ اس طرح دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک دوسرے سے کسی رابطے کے بغیر فاصلہ بدستور قائم ہے۔ ویزا حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔آخر دونوں طرف سے عوام کے رشتے داروں اور احباب کو مصاحب کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔
پاکستان کسی طرح کے کے روابط سے پہلے کشمیر کے مسئلہ کا حل چاہتا ہے ۔ کشمیر کی خود ایک طویل داستان ہے کیوں کہ بٹوارے کے فارمولے میں صرف ہند اور پاکستان کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ وادی کشمیر کی آزادی کے مسئلے کو جو وہاں کے عوام چاہتے ہیں دوبارہ چھڑنے اور اس پر غور کرنے کی کوئی شق ہے نہیں۔ در حقیقت اپنے علاقہ کے حصول کے لئے انہوں نے بندوق اٹھائی ہے ۔ ابھی حال ہی میں سری نگر میں میری ملاقات بعض نوجوانوں سے ہوئی جو وادی کو آزاد اسلامی ریاست بنانے پر کمر بستہ ہیں۔ اس کے ناممکن ہونے کی کوئی دلیل انہیں قائل کر نہیں پارہی ہے ۔ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہماری پارلیمنٹ کشمیر کو آزادانہ حیثیت دینے کی قرار داد کو قابل توجہ سمجھے گی اور پاکستان سمجھتا ہے کہ یہی اس کی رگ حیات ہے۔اس لئے مجھے اگلے70سال تک بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔ اتنا ہی عرصہ ہم ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں نکال چکے ہیں ۔ سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ اقوام متحدہ میں پیش کردہ عرضی کو واپس لے کر پاکستان کو یہ یقین دلایاجائے کہ ہندوستان اسلام آباد سے امن اور اچھے روابط کا خواہاں ہے، ہوسکتا ہے کہ دونوں طرف کے میڈیا سربراہان ممکن ہو تو مذاکرات کی میزپر بیٹھیں اور کوئی ٹھوس تجاویز پیش کریں۔
70 years of joy and pain. Column: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں