پی ٹی آئی
ہاشم پورہ میں ہلاکتوںکے واقعہ کو تقریبا تیس سال ہوگئے ہیں اور اس وقت کے ضلع غازی آباد کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کس طرح42مسلمانوں کو صوبائی آرمڈ کانسٹبلز کے جوانوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔22 مئی1987ء کی موسم گرما کی ہولناک رات تھی۔ سابق ایس پی وبھوتی نارائن را نے کہا ہاشم پورہ کا یہ واقعہ انہہیں مسلسل کچوکے دیتا رہتا ہے ۔ یہ تحویل میں ہوئیں سب سے زیادہ ہلاکتوں کے بارے میں ہندوستان کی فراموش کردہ کہانی ہے ۔ اس کے بعد بھگدڑ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ہندی ورژن سے اس کا ترجمہ درشن دیساء نے کیا ہے اور اسے پینگوئن بکس کی جانب سے شائع کیا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کوئی ساڑھے دس بجے شب کا وقت تھا ۔ میں ہاپور سے ابھی ابھی واپس ہوا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری قیام گاہ پرچھوڑنے کے بعد میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ گیٹ میں داخل ہوتے ہی میری کار کی ہیڈ لائٹس ایک سب انسپکٹر وی بی سنگھ کے چہر ہ پر پڑھیں۔ وہ اس وقت لنک روڈ پولیس اسٹیشن کا انچارج تھا۔ وہ بڑا سہما ہوا اور نروس دکھائی دے رہا تھا ۔ کوئی بھی اسے دیکھ کر یہ اندازہ قائم کرسکتا تھا کہ اس کے پولیس اسٹیشن کے حدود میں کچھ خوفناک واقعہ ہوا ہے ۔ میں نے ڈرائیور سے کار روک دینے کے لئے کہا اور نیچے اتر گیا۔ پوچھنے پر پہلے وہ تشریح کرنے سے گھبرانے لگا تاہم بعد میں اس نے شکستہ لفظوں میں جو کچھ کہا وہ کسی کو بھی چونکا دینے کے لئے کافی تھا ۔ میں اس کی بات سمجھ پا کہ پی اے سی کے جوانوں نے چند افراد از حد امکان مسلمانوں کو ماکھن پور جانے والی سڑک سے گزرنے والی نہر کے قریب ہلاک کیا ہے ۔ پولیس اسٹیشن میں تقریبا نو بجے شب وی پی سنگھ اور دیگر پولیس ملازمین نے گولیاں چلنے کی آوازوں پر یہ گمان کیا کہ شائد موضع میں کوئی ڈکیتی ہوئی ہے ۔ سنگھ موٹر سیکل پر اس سمت ایک اور انسپکٹر کے ساتھ روانہ ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ایک ٹرک ان کی طرف آرہا ہے ۔ اگر وہ موٹر سیکل سڑک سے نیچے نہ اتار لیتے تو ٹرک نے موٹر سیکل کو ٹکر دے دی ہوتی۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا کہ زرد رنگ کے ٹرک میں جس پر41تحریر تھا، کچھ افراد خاکی یونیفارم میںاس کے عقب میں بیٹھے ہوئے ہیں کسی پر فیشنل پولیس ملازم کے لئے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ یہ گاڑی پی اے سی کی41ویں بٹالین کی تھی۔ انہوں نے کہا میں نے سوچا کہ رات کے وقت پی اے سی کا ٹرک یہاں کیا کررہا ہے ۔ کیا اس کا گولیاں چلائے جانے سے کوئی تعلق ہے ۔ وہ موٹر سیکل پر اس سمت ایک کلو میٹر ہی گئے تھے کہ انہوں نے اکھن پور کے قریب ایک ہولناک منظر دیکھا۔ نہر کے اطراف کئی نعشیں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انڈین اسٹیٹ اور اقلیتوں کے درمیان تعلقات کی ایک سوز انگیز کہانی ہے۔ پولیس کا یہ رویہ غیر اخلاقی اور عدلیہ سسٹم کے مغائر مایوس کن واقعہ تھے، پچھلے سال یوپی کے16ملازمین جنہیں42مسلمانوں کے قتل میں ماخوذ قرار دیا گیا تھا ایک عدالت نے انہیں بری کردیا ۔ ان ہلاکتوں کے پس پردہ حالات پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہاشم پورہ میں ان ہلاکتوں کے بعد انہوں نے اس واقعہ پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں