مالیگاؤں بم بلاسٹ کی کلیدی ملزمہ سادھوی پرگیہ کو جہاں این آئی اے نے کلین چٹ اور کرنل پروہت پر سے مکوکا ہٹا دیا ہے جس سے ملک کے آئین،تفتیشی ایجنسیوں اور جمہوری اقدار نیز مسلمانوں کے تحفظ پرسوالیہ نشان لگ چکا ہے۲۹ ستمبر کے روز مالیگاؤں بم دھماکوں میں ماخوذ سادھوی پرگیہ خے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود بھی اُن پر عائد الزامات سے پہلو تہی ملزمہ کے ساتھ نرم رویّہ اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کے عین مترادف ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو شک کی بنیاد پر محض تفتیش و تحقیق کی بنیاد پر پولس اسٹیشن لے جایا گیا وہ دس پندرہ برس کے بعد ہی گھر لوٹے ہیں۔اُن کے خلاف ثبوت نہ ہونے کے با وجود بھی جعلی ثبوتوں کی بنیاد پر اُنہیں بر سہا برس تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔نیز اُن کا گھر بھی ایک اذیت کدے سے کم نہیں تھا اُسی کے ساتھ ساتھا اُ ن کا کردار بھی ملیا میٹ کیا گیا جہاں اُنہوں نے اپنی جوانی کے قیمتی برس گنوا دیے۔اُن میں بعض تعلیم یافتہ بھی تھے مگر اُن کی اسناد کو جھوٹے الزامات کی دیمک کب کی چاٹ چُکی تھی۔بم دھماکوں میں اُن کا صرف اتنا ہی قصور تھا کہ وہ توحید کے قائل تھے۔آج وہ بے قصور ہونے کے با وجود بھی اپنا جینا دو بھر کر چُکے ہیں مگر جو شواہد پرگیہ کے خلاف تھے اُن کا یکایک غائب ہو جانا اور سوامی اسیما نند کا اقبالیہ بیان بھی نظر انداز کرنا تفتیشی ایجنسیوں کی ملی بھگت کی غمازی کرتا ہے۔ایک طرف بے قصور مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد ثبوتوں کی جہاں بھر مار کی جاتی ہے تو وہیں دوسری طرف قصور وار بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ نرم برتاؤ کے ساتھ ساتھ اُ ن کے خلاف حاصل شدہ ثبوتوں کو مٹانے کی منظم سازش رَچی جاتی ہے جو سراسر تحقیق کے قوانین کے عین منافی ہے۔یہ منظم سازش ہمیں اس بات کا بھی اشارہ دیتی ہے کہ جہاں ابھی مسلمانوں کی رہائی کی خبریں آئی ہیں بس اسی دھارے میں پرگیہ اور کرنل کے بھی الزامات کو بہا کر اُنہیں بھی کلین چٹ دیدی جائے۔یہسوچی سمجھی منظم سازشیں ہمیشہ موقعوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ ان خطرناک مجرموں سے رعایت برتنے کا اُنہیں ایک نادر موقع فراہم ہو گیا اور اُسی کو بنیاد بنا کر جہاں سادھوی کو کلین چٹ دیدی گئی وہیں کرنل پروہت اور دیگر ملزمین پر سے مکوکا ہٹا کر دیگر دفعات چڑھادیے گئے گویا مکوکا کا اطلاق صرف مسلمانوں کے لئے ہی کیا گیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ بے قصور ہونے کے با وجود بھی من گھڑت ثبوتوں کی بنیاد پر اُنہیں اپنی نا کردہ گناہوں کی اذیت جھیلنی پڑی۔بی جے پی کے دورِ حکومت میں ہی حالات نے تعصّب کا لباس پہنا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا ملی ہے۔اس ضمن میں مودی کو گجرات کا بھی طویل عرصی تجربہ حاصل ہے۔آج بی جے پی حکومت سنگھی ایجنڈے کو ملک گیر پیمانے پر نافذ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔اگر اسی محنت کا دسواں حصّہ بھی یہی سرکار جمہوریت کی سالمیت اور خود اپنے ہی اقتدار کے لئے صَرف کرتی تو اُس میں زیادہ تر بہتری حکومت کے ہی حق میں ہوتی۔مگر ہر بار نفرت سے لبریز حلف نامے کی تکمیل بھی اُنہیں چین سے سونے نہیں دیتی کہ وہ جان چُکے ہیں کہ یہ ہندوستان ہے جہاں صرف کسی ایک مذہب کے نام لیوا نہیں ہیں کہ اُنہیں آسانی سے دبایا جا سکے البتہ اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اقلیتی طبقے کو جب جب حکومت دبانے کی سازشیں اور ہتھکنڈوں کا استعمال کرے گی یہ طبقہ اُسی قوت کے ساتھ اُبھرنے کا بھی عزم رکھتا ہے۔جس کی کامیابی کی جھلک بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے رُوپ میں خود بھگوا تنظیمیں اور بھگوا مُرید حکومت اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکی ہے۔ مسلمانوں کی یہ رہائی اُنہیں برداشت نہیں ہو ئی اور اسی حسد کی آگ میں وہ جلتے ہی رَہیں گے۔کچھ مقدمات ایسے ہوتے ہیں جو میڈیا میں شدید شہرت حاصل کر لیتے ہیں جس میں ملزموں پر عائد کیے گئے الزامات کے ساتھ ساتھ کافی اور نا کافی ثبوتوں کا بھی کچھا چٹھا ہوتا ہے جو عوام کے لئے بحث و مباحثے کا سامان ہوتا ہے۔جب الزامات کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی طشت از بام ہو جاتے ہیں تو لوگ باگ بحث و مباحثے میں بھی فرضی سزا کا بھی اعلان کر جاتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شواہد پرگیہ کے خلاف مو جود تھے اُن کا یکایک پَر لگ اُڑ جانا بھی مغالطے کے ساتھ ساتھ تفتیشی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ عوامی اعتماد کو بھی ٹھیس پہونچانے کے مترادف بھی ہے کیونکہ شواہد تو میڈیا کے ہی ذریعے عوام تک پہونچے ہیں تو پھر فرض شناسی کا ٹھپہ لیے آج کا میڈیا کیا اپنی پُرانی نشریات کو دوبارہ نشر کر کے پنی فرض شناسی کے دعوے کھوکلا ثابت کرنے سے بچا پائے گا؟یہ کام بھی میڈیا کے لئے دھرم سنکٹ کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں سانپ پالنے کے عین مطابق ہے۔ہو نہ ہو پرگیہ اور کرنل پروہت کے اچھے دن آہی گئے تاہم ابھی مسلمانی تڑکا باقی ہے۔اور انشاء اللہ یہ تڑکا ایسا آخری ثابت ہو گا کہ دوبارہ تفتیشی ایجنسیاں بھی ثبوتوں کے ہیر پھیر کی جرائت نہ کر سکیں گی۔اور وہ ہمارے اتحاد کی ہی بے نظیر طاقت ہقگی جو ان خطر ناک مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچانے پر ہی دَم لے گی ۔ساری کارستانی اور تخریب کا ری محض ثبوتوں کے کھلواڑ کے باعث ہی انجام پذیر ہوئی ہے جس کا اصل مقصد پرگیہ اور کرنل پارٹی کی رہائی ہی ہے۔اب یہ جنگ ثبوتوں کی جنگ بن گئی ہے۔سائیکل کا بھی استعمال اُن بم دھماکوں میں کیا گیا تھا جو خوش قسمتی سے ہی پرگیہ کی ہی ملکیت تھی۔کرنل پروہت سے مکوکا ہٹانے اور دیگر دفعات کے اطلاق پر زبردست سیاسی دباؤ کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں رگھونشی کا بھی کردار قدرے مشکوک معلوم ہوتا ہے جو ان تمام مجرموں کے سر پوش بن گئے ہیں۔رگھونشی کا موازنہ بھی ہیمنت کر کرے سے کرنا اُس پیشے کو گالی دینے کے عین متراف ہے۔کرکرے ایک فرض شناس ،دیانت دار اور جمہوری اقدار کے پرستار تھے۔اُن کا طرزِ تفتیش ٹھوس حقائق پر مبنی تھا اور اسی وجہ سے اُنہیں دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔بالآخر انہی مجرموں کو بچانے کے لئے شر پسندوں نے اُنہیں جامِ شہادت پیش کیا۔جبکہ رگھونشی کو دھمکیاں تو درکنار شاباشیوں کی بو چھار بھی ہو گئی ہو گی۔مگر کب تک؟ ابھی اس ظلم کے خلاف لڑائی باقی ہے تا کہ انصاف اور تفتیشی ایجنسیوں کا اعتماد بھی باقی رہے۔مسلمانوں کو اس لئے رہائی دی گئی تھی کہ اُن کے شواہد ہی نہیں تھے جبکہ پرگیہ اور کرنل پروہت پارٹی کو سیاسی اثر و رسوخ کے تحت بچانے میں تگ و دو جاری ہے۔لیکن ہمارا مسلم اتحاد بھی اس لڑائی میں کلیدی کردار ادا کرے گا جس کے لئے سنگین احتجاج کی ضرورت ہے تا کہ تباہ کاروں کو اُن کے کیے گئے گناہوں کی سزا بھی ملے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد بھی قائم رہے۔آج اگر پرگیہ اور کرنل پروہت کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی گئی تو یہی خاموشی ہمارے لئے وبالِ جان ثابت ہو سکتی ہے۔کل کوئی اور پرگیہ اور کرنل پروہت بھگوا دہشت گردی کو گروغ اور ملک میں تخریب کاری انجام دینے کے دَرپے ہونگے،کل کسی اور علاقے کو بھی یہ نشانہ بنا سکتے ہیں۔اس لئے ان مجرموں کے خلاف سخت صدائے احتجاج ہی ہمارا اوّلین قدم ہو نا چاہئے۔ورنہ سنگھی ایجنڈوں کے ان وفادار ادھ مرے جسموں میں ابھی اتنی جان باقی ہے کہ بخشوانے کے بعد بھی کسی اور علاقے پر دھاوا بولنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ بھگوا دہشت گردی کے اس درخت کی شاخوں کو نہ چھانٹتے ہوئے اس کو جڑوں سے ہی اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کر لیا جائے۔اسی میں ملّت کی بھلائی اور آبرو کا راز مضمر ہے۔آج کی خاموشی کل کی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں اس لئے اس مسئلے پرغور کرتے ہوئے اس سمت تیز رفتاری کے ساتھ نیز مکمل ہوش و ہواس کے ساتھ حکمت بھری کاروائی در کار ہے تاکہ شر پسندوں کے نا پاک عزائم پر آخری کیل ٹھونکی جا سکے۔آج ان خطر ناک مجرموں کو جس تیز رفتاری کے ساتھ بچانے کی کوششیں بھی کی جا رہیں ہوں گی ایسی صورتِ حال میں اس خبر سے علاقہ رکھنے والی ہر خبر پر گہری نظر بھی رکھنی ہوگی تا کہ اپنی کاروائی میں تشنہ لبی پیدا نہ ہو۔آج ان کا قانون کے چنگل سے بچ نکلنا ہمارے لئے مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ایسے خطر ناک مجرموں کو اب سبق سکھانا ہی ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے تا کہ دھماکوں یا کسی اور الزامات میں مسلمانوں کے ارد گرد شک کی سوئی گومنے سے پیشتر اُن کے ہاتھوں پر ایک غیر مرئی کپکپی طاری ہو جائے۔تفتیشی ایجنسیوں اور مجرموں کی نا جائز مدد کرنے والوں کو اپنا احتساب بھی کرنے کی ضرورت ہے۔اگر حکومت بھی واقعی اپنے اثر رسوخ کا استعمال کر کے ان مجرموں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے تو وہ ملک کے عوام کی آنکھوں میں سراسر دھول جھونکنے کا کام انجام دے رہی ہے۔ویسے بھی حالیہ حکومت کی کار کردگی بھی غیر اطمینان بخش ہے۔اس حکومت کے لئے اب صرف میڈیا ہی معجون کا درجہ رکھتا ہے جو عنقریب انتخابات سے پیشتر بڑے ہی ناز و انداز سے اچھے دن آنے والے ہیں کی قسط نمبر دو کی تشہیر کرے گا۔تعصّب کا شکار یہ حکومت کسی طور جمہوریت کے معنی و مفہوم سے بھی نا آشنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس ایجنڈے کو وہ ملک گیر سطح پر نافذ کرنا چاہتی ہے اس سے اُسکی ذہنیت کا پتہ ملتا ہے لیکن ا جمہور ی نظامِ حکومت میں اس طور کے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے تعلق سے غور وفکر بھی وقت کا زیاں ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔بہ الفاظِ دیگر اسے کارِ عبث ہی کہا جا سکتا ہے مگر اتنا تو طے ہے کہ اگلے پانچ برسوں کے لئے ملک کو ایک سیکولر ذہن حکومت درکار ہے۔اگر واقعی یہی حکومت دوبارہ اقتدار پر براجمان ہو نے کی جدو جہد میں ہے تو یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے بہتر حکومتی نظام تو معدودے چندزنخے بھی بہتر طریقے سے انجام دیں گے۔!!!
***
Waris Tudilvee
Mob: 09967245403
waristudilvee[@]gmail.com
Waris Tudilvee
Mob: 09967245403
waristudilvee[@]gmail.com
وارث توڑیلوی |
Clean chit to Sadhvi Pragya, NIA drops MCOCA. Article: Waris Tudilvee
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں