ہونٹ سی لینا ہمارا - عنوان محفل ہے آج کل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-20

ہونٹ سی لینا ہمارا - عنوان محفل ہے آج کل

sewing the lips
اہل حق اور سچا ئی کے متلاشی ساری دنیا میں پر امن مگر پر زور احتجاج کر رہے ہیں۔۔۔ دل کھول کر بولتے ہیں اور سلیقہ سے اپنا عندیہ پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن مسلمانان عالم اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر یا تو خاموش ہیں یا پھر اس غزال کی صورت سکتے میں آگئے ہیں جو تیز روشنی کا شکار ہو گیا ہے۔۔۔اور اب تو یہ حال ہوا ہے کہ۔۔۔۔ہونٹ سی لینا ہمارا، عنوان محفل ہے آج کل۔۔۔۔مگر بقول شا عر ۔۔۔جب سب کے لب سل جائیں گے، ہاتھوں سے قلم چھن جائیں گے ۔۔۔۔۔باطل سے لوہا لینے کا اعلان کریں گی زنجیریں ۔۔اور یہ وقت کبھی بھی کہیں بھی آسکتا ہے، بلکہ حالیہ دنوں میں طلبا نے مختلف ممالک میں باطل سے لوہا لے کر دکھایا ہے اور اہل فکر و قلم نے اپنے اعزازت لوٹا کر ۔۔۔مگر کچھ خود ساختہ دینی، سماجی اور سیاسی رہنما اگر منہ کھولتے بھی ہیں تو ایسے تاریک گلی کوچوں میں جہاں سے دبے قدموں نکل جانا ضروری ہوتا ہے، ورنہ منہ کھولتے ہی گلی کے کتے آواز ملانے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔شہر کے آوارہ کتوں کا کیا ہے۔۔۔ بے چارے اپنی گلی میں ہی صرف شیر بنتے ہیں۔۔۔۔۔ اچھا ہوا انہیں شہریت نہیں دی گئی ورنہ وہ بھی زعم میں آکر انسانوں سے حب الوطنی کی سند پوچھتے اور شا ید کاٹ کھاتے۔۔۔لیکن چند ایسے پالتو کتے بھی ہیں جنکو حکومتوں نے شہریت دے رکھی ہے، جو جرائم کی تفتیش میں مدددگار ہوتے ہیں ۔۔۔ان کتوں کو انگریز 'اسنیفر ڈاگ' کہتے ہیں ۔۔۔۔ یعنی انکی وفاداری سونگھنے تک محدود ہے۔۔۔۔۔ کتے اگر سونگھنے میں ناکام ہوجائیں تو انکی شہریت، وفا داری اور حب الوطنی مشکوک ہو سکتی ہے۔۔۔۔اب گھوڑوں کو بھی شہریت دی جا نی چاہیے۔۔۔۔۔کیونکہ وفاداری میں گھوڑے بھی کتوں سے کم کہاں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ابھی حال ہی میں ایک گھوڑے یا غالبا گھوڑی نے وفا داری بلکہ حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے بی جے پی حکومت کے کارندے کے ہاتھوں اپنی ٹانگ تڑوائی ہے۔۔۔۔۔جو غالبا اسکی "چوتھی ٹانگ" تھی۔۔۔۔میڈیا یہی کچھ بتا رہا تھا۔۔۔۔۔اور ایسے بتا رہا تھا مانوں اسکی اپنی ٹانگ توڑ دی گئی ہو۔۔۔۔۔ لیکن گھوڑے کی باقی تین ٹانگوں کو پہلے کبھی توڑا جا چکا تھا یا نہیں کسے پتا۔۔۔۔ اتنا 'کووریج' تو گدھوں کے ساتھ ظلم ہونے پر بھی نہیں دیا جاتا۔۔۔ایک تو گھوڑی یعنی مونث اور اس پر چوتھی ٹانگ۔۔۔۔" ٹی وی کووریج" تو لازم آتی ہے۔۔ ۔۔۔اور حیرت ہے کہ گھوڑے کی اس چوتھی 'ٹانگ' توڑنے کے خلاف احتجاج نہ ہی کتوں نے کیا اور نہ ہی گھوڑوں نے۔۔۔۔ بلکہ گدھے تک احتجاجا باہر نہیں آئے۔۔۔۔۔۔تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وفاداری کی فہرست میں گدھوں کا نام نہیں، جبکہ یہ گھوڑوں اور کتوں سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ وفا کر کے بھی گنہ گاروں کی طرح سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔۔۔خاصکر اس وقت جب بقول شا عر۔۔۔۔ مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام ۔۔۔۔۔ اب یہاں 'وہ' سے مراد اہل اقتدار ہی ہیں۔۔۔۔اور وفاداروں کی فہرست جمہوریت میں بجٹ کے وقت ہی بنائی جاتی ہے۔۔۔۔۔الغرض یہ تینوں وفادار جانور اس جگہ سے بہت محبت کرتے ہیں جہاں یہ پیدا ہوتے ہیں اور پلتے بڑھتے ہیں ۔۔۔۔ کتے اپنی گلی نہیں چھوڑتے، گھوڑے اپنے اصطبل سے انسیت رکھتے ہیں اور گدھے ساری عمر دھوبی کے گھاٹ کے ہورہتے ہیں۔۔۔۔ یہی انکی وفاداری کی سند ہے۔۔۔۔۔۔یہی حال کچھ کچھ اب مہذب و متمدن انسان کا ہوا جا رہاہے۔۔۔ملک سے محبت کے نعروں نے ملکوں کا اور انکی عوام کا برا حال کر رکھا ہے۔۔۔۔ تہذیب جدیدہ میں اسے ' نیشنلزم' سے موسوم کیا جاتا ہے ۔۔۔

اب ملکوں سے محبت و عقیدت چند نعروں میں سمٹ کر رہ گئی ہے، اور اب ایسے خود ساختہ وطن پرست نمودار ہورہے ہیں جو حب الوطنی کی سند پوچھتے ہیں ، جنکی آستینوں میں خنجر چھپے ہیں اور جنکے ہاتھ خون سے رنگے ہیں۔۔۔۔۔ملک کی جئے ہو۔۔۔ ماتا کی جئے ہو کہیے '، یا مادر وطن زندہ باد کہیے، ۔۔ یا ماں تجھے سلام کہیے یا وطن پائندہ باد، یا "زندہ باد اے وہ زمیں جو آزاد اور بہادر لوگوں سے آباد ہے" جیسے نعروں سے حب الوطنی کو ناپا اور تولا جا ئے ۔۔۔۔کچھ فرق نہیں پڑتا اگر سچائی، ایمانداری، شرافت، حق گوئی جیسی صفات ان محب وطن میں موجود نہ ہوں۔۔۔۔۔اس میں کوئی د ورائے نہیں کہ اپنے ملک سے محبت فطری ہے ۔۔۔۔ شیطان کو بھی جہنم سے پیار ہوتا ہوگا۔۔۔۔۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو تمام مخلوقات اور خاصکر انسان اس زمین ، مقام، خطہ، یا بستی، مٹی، پانی، آب و ہوا، موسم، مویشی، پھول پھل، اناج، ہمسایوں اور ہم نفسوں سے گہری انسیت رکھتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے، پرورش پاتا ہے اور ایک جانی انجانی وابستگی اور محبت سے سرشار رہتا ہے، جو تہذیب و تمدن کے کسی پڑاؤ پر آکرمتعصب حب الوطنی کا یا جذبات کے کسی مقام پر پہنچ کر اندھی پرستش کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔۔۔ اس خطہ کو چاہے انسان ملک کہہ لے یا چرند پرند اپنا آشیانہ سمجھ لیں، ایک ہی بات ہے ۔۔۔۔۔چہ جائیکه اس خطہ کا رقبہ کرہ ارض کے برابر ہو یا ایک گھونسلے کے۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان اپنی جائے پیدائیش اور مقام پرورش سے ایسی محبت و عقیدت بھی رکھ سکتا ہے جیسی وہ اپنی ماں سے رکھتا ہے۔۔۔۔بلکہ کھوکھلے نعروں کے زعم میں آجائے تو ماں سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی ہمدردی اور ہم وطنوں سے انصاف کی خاطر، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہو جا ئے تو آزادی کا نعرہ لگا کر اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے۔۔۔۔ وطن سے محبت کا یہ جذبہ بطور علامت اسکی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، اور پھر مادر وطن کہا جائے یا دھرتی ماتا ایک ہی بات ہے ۔۔۔لیکن بھارت ماتا کی جئے کہلوانے پر اصرار کرنے والوں کی ذہنیت کوپرکھنا ضروری ہے کہ وہ بھارت ماتا کی مورتی کو پوجنے پر اصرار کر رہے ہیں یا وطن سے محبت کا اظہار کروانے پر مصر ہیں۔۔۔اور اس قسم کے بے شمار اور بھی اصرار ہیں جو وہ اقلیت سے کرتے آئے ہیں۔۔۔ جن میں داڑھی ٹوپی کے استعمال سے لے کر گوشت کھانے کی مما نعت تک سب کچھ شامل ہے۔۔۔۔۔ اور پچھلے چار ہزار سالوں سے وہ اسی طرح ملک کے ایک طبقے کا استحصال و استبداد کرتے آرہے ہیں۔۔۔اور اب پھر ایک خاص طبقے سے ہی ایسے اصرار کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ طرز فکر و عمل ایسے شر پسندوں کا وطیرا رہا ہے جو "منو سمرتی" کے پیروکار و پرستار ہیں اور جس کا ثبوت ہندوستان کی ہزاروں سالہ اس قدیم تاریخ سے ملتا ہے جو آج بھی چھوت چھات کے گلے میں گنٹھیوں کی طرح بجتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ملک کے ہر اس شہری کو ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں جو انکی تاریک اندھی آئیڈیا لوجی کے سامنے سر نہیں جھکاتا ، پھر وہ شخص چاہے بہ مانند سورج ملک کو روشنی ہی کیوں نہ دیتا ہو ۔۔۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔سورج کو دو دیس نکالا، دن کا قصہ پاک کرو۔۔۔ بنتے ہیں ایسے منصوبے رات کے رشتے داروں میں ۔۔۔۔

اکثر خود ساختہ رہنماؤں کی حب الوطنی دیکھ کر ترس بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے، جب وہ بے وقت کی راگنی الاپتے ہیں، اور بے موقع و محل جمہوریت کے ایوانوں میں اپنی حب الوطنی کا شد و مد سے اظہار کر وا واہی بٹورتے ہیں ۔۔جب کہ مظلوموں پر ہونے والے ظلم پر برملا اور خصوصیت کے ساتھ اظہار نہیں کر پاتے، کہ کہیں یہ بغیر لاگ لپیٹ کا اظہار حق، گلے کی ہڈی ہی نہ بن جا ئے۔۔۔۔۔ دنیا میں ہر قسم کی سیاسی جما عتیں اور ہر قسم کے سیاست دان ملیں گے جن کی حب الوطنی کے کارنامے تاریخ میں درج ہیں۔۔۔ نہرو ہوں یا کلنٹن، مودی راجہ ہوں یا ملکہ برطانیہ ، ایوب ہو یا یحیی، بھٹو ہوں یا شریف۔۔۔اور آر ایس ایس ہو یا کانگریس یا بی جے پی یا دوسری سیاسی جماعتیں۔۔۔۔ ان سبکی حب الوطنی سے بھلا کون واقف نہیں ہوگا۔۔۔۔ اور لوگوں کو تو ہٹلر چنگیز خان اور بش حضرات کی حب الوطنی بھی یاد ہوگی ۔۔۔۔۔کمال کے رہبر تھےکہ ساری دنیا کو اپنا ملک سمجھ کر لوٹ مار کرنے نکلے تھے۔۔۔۔۔مودی راجہ کی گجرات سے محبت کسے نہیں معلوم اور لالو اور نیتیش کی بہار سے، اور مایا وتی اور ملائم کی محبت اتر پردیش سے ۔۔گاندھی خاندان کی رایے بریلی اور امیٹھی سے ۔۔۔شریفوں کی پنجاب سے اور بھٹووں کی سندھ سے۔۔۔۔ کہنے کو تو وجے مالیا اور ہرشد مہتا جیسے لوگ بھی بھارت ماتا کی جئے جئے کار کر کے اپنے ملک سے محبت کے دعویدار ہوئے ۔۔۔اور حالیہ دنوں میں بد عنوانی کے جرم میں جیل بھیجے گئے سیاستداں بھی ۔۔۔۔ اور وہ بھی جو مجرم ہوکر بھی کسی طرح جیل جانے سے بچ گئے۔۔ اور وہ بھی جنہوں نے معصوم و مجبور انسانوں کا شہروں میں قتل عام کیا۔۔۔ یا کروایا۔۔۔ یا خاموش تما شا ئی بن کر دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ اور وہ طبقہ بھی جو احتجاجا اپنی مانگ منوانے کے لئے ملک کو جلانے پر تل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ دہشت گرد بھی جو اپنے ہی ملک کے لوگوں کا قتل کرنے میں نہیں ہچکچاتے، وہ غدار وطن بھی جو اپنے ہی ملک کا سودا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، وہ شہری جو ٹیکس چوری کرنے میں، اور بد عنوانی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، اور وہ سیاست دان جو گندی سیاست کرنے میں اور وہ تاجر جو غیر قانونی تجارت اور سرمایہ داری کرنے میں۔۔۔۔ الغرض تمام سماج مخالف کام کرنے کے باوجود بھی یہ شہری اپنے آپ کو محب وطن مانتے ہیں اور منواتے ہیں۔۔۔ اور حکومتیں، میڈیا، ہوں یا سیاسی جماعتیں سب ان میں شامل ہیں۔۔۔اور یہ سب آج ان لوگوں سے حب الوطنی کا ثبوت مانگتے ہیں کل جنکےآبا و اجداد نے اپنے خون جگر سے حب الوطنی کی تفسیر لکھی تھی۔۔ بقول حفیظ میرٹھی ۔۔۔۔۔۔ جا ں نثاروں کی وفا کا امتحاں لیتے ہیں آج ۔۔۔۔ وہ جو واقف بھی نہ تھے کل تک وفا کے نام سے ۔۔

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Sewing our lips is todays tradition. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں