آئی اے این ایس
کانگریس نے آج جنوری میں ہوئے دہشت گرد حملوں کی تحقیقات کے لئے پاکستان کی سیکوریٹی اور انٹلی جنس عہدیداروں کو پٹھان کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کے اڈے تک رسائی دینے حکومت کے اقدام پر سوال اٹھایا ۔ کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے نامہ نگاروں بتایا کہ پاکستان نے کاروائی کا کوئی تیقن نہیں دیا ہے ، اس کے باوجود ان کی ٹیم کو ہندوستان میں پٹھان کوٹ دہشت گرد حملہ کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔سرجے والا نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی اسٹیٹ ایکٹرس اور نان اسٹیٹ ایکٹرس میں امتیاز نہیں کرسکے ہیں ، جو سرحد پار سے ہندوستان کے خلاف حملے کررے ہیں ۔ سرجے والا نے سوال کیا کیا یہ اقدام اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی حکومت کا ہندوستان میں دہشت گردی پھیلانے میں کوئی رول نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو مناسب محاسبہ کرنا چاہئے اور قوم کو جواب دینا چاہئے ۔ انہوں نے پاکستانی تحقیقات کے امکانی نتائج پر بھی سوال اٹھایا اور استفسار کیا کہ کیا اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ ٹیم دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرے گی؟ سرجے والا نے مزید کہا کہ یہ تحقیقات آکر کس طرح کی جائیں گی؟ کیا دہشت گردوں کو حکومت ہند کے حوالے کیاجائے گا یا ان کے خلاف پاکستانی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے ۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ پانچ رکنی پاکستانی ٹیم پٹھان کوٹ ایربیس پر2جنوری کو ہوئے حملوں کی تحقیقات کے لئے یہاں پہنچی ۔ یہ ٹیم پیر کی شام پٹھان کوٹ کا سفر کرے گی اور وہاں گواہوں سے سوالات کرے گی ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستانی ٹیم کو ہندوستانی فضائیہ کے اڈے تک محدود رسائی دی جائے گی، جہاں مبینہ پاکستانی دہشت گردوں کے حملہ میں سات فوجی ہلاک ہوگئے تھے ۔ دو ہزار ایکٹر کے اس وسیع و عریض کمپلیکس میں جہاں ہندوستان کے دفاعی اثاثہ جات بشمول لڑاکا طیارے ہیں ، کم از کم ایک عام شہری بھی ہلاک ہوا تھا ۔ پاکستان سے سرحد عبور کرکے پنجا ب میں داخل ہونے والے چھ دہشت گردوں کو بھی ہلاک کردیا گیا تھا ۔ نئی دہلی نے پہلی مرتبہ پاکستانی تفتیش کاروں کوہندوستان میں تحقیقات کی اجازت دی ہے ، جب کہ اسی ملک پر حملہ کا الزام ہے ۔ ہندوستان نے اس امید میں پاکستان کو رسائی دی ہے کہ وہ مبینہ مرتکبین بشمول جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔ یو این آئی کے بموجب سرجے والا نے کہا کہ میں کچھ اہم سوالات پیش کررہا ہوں اور حکومت کو ملک کے مفاد میں ان کا جواب دینا چاہئے ۔ کیا پاکستان ، جیش محمد کے سربراہ اور ان کے بھائیوں کو گرفتار کرنے کا تیقن دے گا جن کے ساتھ عسکریت پسند حملہ کے دوران مسلسل ربط میں تھے ۔ اگر اس کا جواب نہ ہے تو پھر اس ٹیم کے دورہ کرنے کا کیا مقصد ہے؟ حکومت نے اودھم پور حملہ، جس میں پولیس جوانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں، کے مرتکبین کو سزا دینے کیا اقدامات کئے ہیں ۔ 26/11حملوں کے مرتکبین کے خلاف کاروائی کے بارے میں کیا طے کیا گیا ہے ؟ کیا حکومت نے ان واقعات کے بارے میں حکومت پاکستان کو کافی ثبوت فراہم کئے ہیں؟ وہ تو صرف معمولی سا رد عمل ظاہر کررہے ہیں ۔ نہ صرف جیش محمد سربراہ کے خلاف بلکہ پاکستانی حکام نے ہندوستان کے ایک اوربڑے دشمن لکھوی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اسے پاکستان میں اچھی پناہ دی گئی ہے۔ علیحدہ اطلاع کے مطابق چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے آج وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے جنوری میں ہندستانی فضائیہ کے اڈے پر حملے کی تحقیقات کے لئے پاکستانی تفتیش کاروں کو اجازت دیتے ہوئے پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ کجریوال نے میڈیا کو پاکستان ہندوستان کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور جاننا چاہا کہ اس کے سیکوریٹی اور انٹلیجنس عہدیداروں کو ایک ایسے واقعہ کی تحقیقات کی اجازت کس طرح دی گئی جو خود اس ملک نے کروایا ہے ۔ عام آدمی پارٹی قائد نے یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی( پاکستان کی خفیہ ایجنسی) ذمہ دار ہے ۔ یہ پاکستان کی زیر سرپرستی کیا گیا دہشت گرد حملہ ہے، تو کیا ہمارا موقف تبدیل ہوچکا ہے؟ وزیر اعظم نریندرمودی پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں؟
PM Modi Has Capitulated To Pakistan, ISI, Says CM Kejriwal
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں