یو این آئی
روہت ویمولا کے افراد خاندان نے مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی پر لوک سبھا میں جھوٹا بیان دینے کا الزام لگایا ہے تاکہ ملک کے عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹا دی جائے۔ روہت کی ماں رادھیکا نے کہا سمرتی ایرانی جی کیا آپ اپنے ڈرامائی اور فلمی انداز سے براہ مہربانی باہر آئیں گی ، یہ حقیقی زندگی ہے ، برائے مہربانی انہیں رنگین مت بنائیے ۔ ایرانی نے دلت اسکالر کی خود کشی پر بیان دیتے ہوئے لوک سبھا میں کہا تھا کہ ایک بچہ اور اس کی نعش پر کیسے سیاست کی جارہی ہے، پولیس کو اگلے دن تک اس کی نعش دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا ، اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے نہیں دیا گیا ، اس کے بجائے اس کی لاش کو سیاسی ہتھیارکے طور پر استعمال کیا گیا ۔ یہ میں نہیں تلنگانہ پولیس کہہ رہی ہے۔ روہت کے بھائی راجہ نے کہا کہ اس کے بھائی کی خود کشی ان حالات کا نتیجہ تھی جو خود کشی سے قبل بنائے گئے تھے ۔ افراد خاندان نے وزیر پر الزام لگایا کہ انہوں نے خود کشی سے چند دن قبل یونیورسٹی کو روہت کی جانب سے لکھے گئے ایک مکتوب کا دانستہ تذکرہ نہیں کیا جس میں اس نے امتیازی سلوک کا الزام لگایا تھا ۔ وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کے پارلیمنٹ میں دئیے گئے بیان پر جے این یو طلبا یونین نے بھی اس مسئلہ پر پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا وزیر پر الزام لگایا ۔ ایرانی نے اس بیان میں کہا کہ دہلی پولیس وزارت داخلہ یا ان کی وزارت کا جے این یو پر پولیس دھاوے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ راجیہ سبھا میں کل دئے گئے اس بیان کو جذبات اور جھوٹ میں اعلیٰ اور حقائق میں کم تر قرار دیتے ہوئے جے این یو ایس یو کی نائب صدر شہلا رشید نے کہا کہ ایوان پارلیمنٹ میں مس ایرانی نے دعویٰ کیا کہ دہلی پولیس، وزارت داخلہ، یا وزارت فروغ انسانی وسائل کا جے این یو پر پولیس دھاوے سے کوئی تعلق نہیں تھا انہوں نے جے این یو انتظامیہ کی عبوری رپورٹ پر اقدام کیا ۔ یہ بیان گمراہ کن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جے این یو انتظامیہ کی عبوری رپورٹ اس حیثیت سے معاندانہ ہے کہ 8طلبا کے نام ان سے وضاحت طلب کئے بغیر قصور وار کی حیثیت سے بتادئیے گئے اور انہیں معطل کردیا گیا ۔ انہیں صفائی کا کوئی موقع نہیں دیا گیا ۔ مزید یہ کہ خود ساختہ اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع ہونے کے اندرون24گھنٹے انہیں کے بارے میں فیصلہ لیا گیا ۔ اس طرح اس کمیٹی نے فطری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔
Smriti misled Parliament on JNU issue: JNUSU
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں