پی ٹی آئی
راجیہ سبھا میں عدم رواداری کے مسئلہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ سماج میں کچھ تو عدم رواداری ہے، اسے طول دینے کے بجائے اس کی شناخت ہونی چاہئے اور اس کے ساتھ سختی سے نمٹنا چاہئے ۔ کسی مخصوص واقعہ کا حوالہ دئیے بغیر نائیڈو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ الٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں، ان کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ سماج کے مخٹلف شعبوں میں کچھ عدم رواداری پائی جاتی ہے۔ اس کی شناخت کرنی ہوگی اور اسکے ساتھ سختی سے نمٹنا ہوگا ۔ بجائے اس کے ہم اسے طول دے رہے ہیں ۔ اپنی دانست میں دلتوں کی اور مختلف ریاستوں میں مصنفین کی ہلاکتوں کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے وزیرا عظم بننے کے بعد راتوں رات واقعات رونما نہیں ہوئے ۔ یہ چیزیں اب دیکھی جارہی ہیں ۔ چند لوگ الٹے بیانات دے رہے ہیں ۔ ہمیں ان کی مذمت کرنی ہوگی اور ہمیں ان کو یکا و تنہا کرنا ہوگا ۔ انہوں نے سینئر کانگریس قائد پی چدمبرم کے بیان کہ سلمان رشدی کے متنازعہ ناول’’شیطانی کلمات‘‘ پر امتناع عائد کرنا غلط بات تھی ، ان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو چیزیں ہیں ایک تویہ کہ لوگ کتابیں تحریر کرتے ہیں ۔ وہ عوام کے جذبات کا متاثر نہیں کرنی چاہئیں ۔ انہیں سماجی تناؤ پیدا نہیں کرنا چاہئے، لیکن اسی دوران اظہار خیال کی آزادی اور تقریر کی آزادی کا عوام حق رکھتے ہیں ۔ ہم اس سے کس طرح نمٹتے ہیں ، اس سلسلہ میں ہمیں وسیع طور پر اتفاق رائے حاصل کرنا ہوگا ۔ جہاں سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی سے خوشیاں منائی گئیں وہیں شیوا جی کی کتاب پر احتجاجات کئے گئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختلف زاویے سامنے آتے ہیں ہندو زاویہ ، مسلم زاویہ۔ کتابوں یا فلموں پر امتناع کے بارے میں ایک پالیسی ہونی چاہئے۔ نائیڈو نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے رواداری برتنی چاہئے اور عوام کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہئے۔ یہی رواداری کی بڑی شکل ہے ۔ مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایکس کو ٹاملناڈو پر حکومت کرنے کے لئے عوام نے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور وائی کو مغربی بنگال پر حکومت کرنے کے لئے عوامی فیصلہ دیا تھا ۔ ہمیں اس کا احترام کرنا ہوگا۔ اسی طرح بہار کے عوام کا نتیش کمار کے حق میں(لالو پرساد کی مدد کے ساتھ) فیصلہ کا بھی احترام کرنا چاہئے ۔ اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ۔ نائیڈو نے سیاسی پارٹیوں کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے کی اپیل کی اور کہا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت کے کارناموں کے بارے میں تنگ نظری سے نکتہ چینی کیے جانے سے یہ بالاترہونا چاہئے ۔ انہوںنے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت اور اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مباحث کرنی چاہئیں اور فیصلہ کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کچھ رواداری ہے تو پارلیمنٹ چل سکتی ہے ۔ دستور کے موجدوں نے قانون دیوانی اور فوجداری دونوں میں یکسانیت کی طمانیت دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شادی، طلاق اور دیگر معاملات کے بارے میں کام کرنے کے لئے کیا ہندستان موقف رکھتا ہے ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جنسی مساوات کے معاملہ میں انصاف کیا گیا ہے؟ جب کہ تمام پارٹیان خواتین کے تحفظات کے حق میں ہیں، پھر یہ کیوں نہیں ہوپایا؟ انہوں نے کہا کہ علاقائی عدم تفاوت کو دور کرنا چیلنج ہے ۔ این جے اے سی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایک قانون منظور ہواتھا، جسے پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔ ایوان نے مشترکہ طور پر اسے پاس کیا، جہاں دنیا بھر کے مقابلہ میں ججس خود اپنا تقررکرتے ہیں ، انہوںنے کہا کہ کالجیم سسٹم عمدہ ہے ، پھر کیوں اس میں تبدیلیاں پائی جارہی ہیں؟
Some intolerance exists, need to deal with it… do not generalise: Venkaiah Naidu
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں