یو این آئی، پی ٹی آئی
اشتعال انگیز بیانات کے لئے مشہور بی جے پی لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ نے آج بائیں بازو کارکنوں کا ساتھ دینے پر مشہور فلم اسٹار شاہ رخ خان کو نشانہ تنقید بنایا اور انتباہ دیا کہ اگر اس ملک کے عوام کا بڑا حصہ ان فلموں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلے تو وہ بھی عام مسلمان کی طرح سڑکوں پر بھٹکتے نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اداکار شاہ رخ خان اور دہشت گرد حافظ سعید کی زبان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انہوں نے اداکار کو پاکستان چلے جانے کا بھی مشورہ دیا ۔ آدتیہ ناتھ نے ایک ٹی وی چیانل کو بتایا کہ بائیں بازو کے چند انتہا پسند مفکر ، ادیب اور فنکاروں نے سیکولر ازم کے نام پر ملک کے قومی تانے بانے کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ ان کی آوازیں نہ صرف بی جے پی کے خلاف ہیں بلکہ اب وہ کھل کر مخالف ہند بن گئے ہیں۔ بد قسمتی سے شاہ رخ خان نے بھی ان کی آواز میں آواز ملانی شروع کردی ہے جو دنیا کے سامنے ملک کی شبیہ کو مسخ کررہے ہیں ۔ آدتیہ ناتھ نے کہا کہ وہ پہلی مرتبہ ایسی حرکتوں میں ملوث نہیں ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شاہ رخ خان ہندوستانی عوام جن میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ، کے صبرکو آزما رہے ہیں ۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک میں ان کی فلمیں بے حد مقبول ہیں ۔ اگر عوام ان کی فلموں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ بھی سڑکوں پر نظر آئیں گے ۔ آئی اے این ایس کے بموجب انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے عوام کی بڑی تعداد ان کی فلموں کا بائیکاٹ کرے تو وہ بھی عام مسلمانوں کی طرح سڑکوں پر نظر آئیں گے ۔ پجاری سے سیاست داں بنے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہندو سماج روادار اور صبر کرنے والا سماج ہے ۔ ایک مرحہ کے بعد ان چیزوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا ۔ ہم سب کو یہ سمجھنا چاہئے کہ قومی تانے بانے کو درہم برہم کرنے کی ایک سازش رچی جارہی ہے اور ہمیں اس سے بچنا چاہئے ۔ رکن پارلیمنٹ نے یہ تبصرہ ایک ایسے وقت کیا جب کہ بی جے پی عدم رواداری کے مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں اور مہذب سماج کے ارکان کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہے اور دونوں ایک دوسرے پر عدم روادار ہونے کا الزام عائد کررہے ہیں ۔
پی ٹی آئی کی علیحدہ اطلاع کے بموجب بی جے پی لیڈر کیلاش وجئے ورگیہ نے شاہ رخ خان کے خلاف تبصرہ پر تنقیدوں کا نشانہ بننے کے بعد آج اپنے متنازعہ ٹوئٹر پیامات واپس لے لئے، تاہم زور دے کر کہا کہ اگر ہندوستان میں عدم رواداری ہوتی تو امیتابھ بچن کے بعد شاہ رخ خان اپنے مقبول اداکار نہ ہوتے۔ انہوں نے آج صبح ٹوئٹر پر کہا کہ میرا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا ۔ میں کل اپنا ٹوئٹر پیام واپس لیتا ہوں۔ دوسری طرف ان کی پارٹی نے بھی ان کے تبصرہ سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ بی جے پی کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ بی جے پی جنرل سکریٹری نے ایک اور ٹوئٹر پیام میں کہا کہ اگر ہندوستان میں عدم رواداری ہوتی تو امیتابھ کے بعد شاہ رخ خان سب سے زیادہ مقبول اداکار نہ بنتے۔ بعض افراد نے میرے ٹوئٹر پیام کا غلط مطلب اخذ کیا ہے۔ واضح رہے کہ کیلاش وجئے ورگیہ نے کل ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے کہ شاہ رخ خان رہتے تو ہندوستان میں ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں ہے، ایک تنازعہ پید اکردیا تھا۔سینئر بی جے پی لیڈر اور مرکیز وزیر ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ وجئے ورگیہ نے جو کچھ کہا ہے یہ بی جے پی کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹھیک ٹھیک تو یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔ لیکن جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ، وہ میری پارٹی کا نقطہ نظر نہیں ہے۔ ہم عام طور پر افراد پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ ہمیں شاہ رخ خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ وہ ایک عظیم اداکار ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں ۔ لیکن وجئے ورگیہ نے جو کچھ کہا ہے وہ میں نے نہیں دیکھا ہے ۔ شاہ رک خان کے خلاف ٹوئٹر پیام کرنے کے بعد وجئے ورگیہ پر ہر طرف سے تنقیدیں کی جانے لگی تھیں ۔ ترنمول کانگریس کے ترجمان ڈیریک اوبرائن نے انہیں بیمار کردینے والا شخص قرار دیا تھا ۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بی جے پی جنرل سکریٹری نے جو بنگال کے انچارج بھی ہیں، شاہ رخ خان کے خلاف بیمار کرنے دینے والا تبصرہ کیا ہے۔ آخر یہ کس قسم کا رویہ ہے ، ہر شخص برا ہے اور صرف آپ اچھے ہیں ؟ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے بھی بالی ووڈ سوپر اسٹار کی حمایت کی تھی ۔ انہوں نے ٹوئٹر پیام میں کہا تھا کہ ہم سب کو آپ پر فخر ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے الفاظ ہندوستان کو روادار، شمولیاتی اور ترقی پسند بنانے میں مدد کریں گے ۔
BJP MP Yogi Adityanath: No difference in language of Shah Rukh Khan and Hafiz Saeed
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں