رائٹر
پاکستان کے وزیرا عظم نواز شریف نے کہا ہے کہ انہوں نے افغان صدر اشر ف غنی پر یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان تعطل کی شکار بات چیت کی بحالی میں مدد کے لئے تیار ہے لیکن طالبان کے خلاف کارروائی اور ساتھ ہی انہیں بات چیت کے لئے مدعو نہیں کیا جاسکتا ۔ مسٹر شریف نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے ایک دن بعد واشنگٹن میں ایک نظریہ ساز ادارے سے خطاب کرتے ہوئے حالانکہ اس سلسلہ مین وضاحت نہیں کی لیکن وہ بظاہر امریکہ کے اس مطالبے کے تعلق سے بات کررہے تھے جس میں اس نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اپنے یہاں طالبان اور دیگر گروپوں کے خلاف کارروائی کرے ۔ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ امریکہ افغانستان کی قیادت میں مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن بات چیت اور کارروائی میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا ہے ۔ امریکی اہلکار نے کہا کہ ایک کا میاب سیاسی عمل کے لئے ان لوگوں پر مسلسل دباؤ ضروری ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے شہریوں اور ملک کے خلاف تشدد کو روا رکھتے ہیں ۔ اہلکار نے کہا کہ ہم امن بات چیت میں مدد کے لئے پاکستان کے اندر حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے پاکستان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔ اہلکار نے مزید کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف مسلسل تعاون کی توقع رکھتا ہے جو امریکی فورسز کے خلاف حملے کی منصوبہ بند ی کررہے ہیں ۔ اہلکار نے کہا کہ امریکہ مشترکہ بیان میں پاکستان کے اس عزم کا خیر مقدم کرتا ہے جس میں اس نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام انتہا پسند گروپوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات کہی ہے۔ مسٹر شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان افغانستان میں تشد د کیوں چاہے گا ۔ جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں اوباما اور شریف نے افغانستان میں امن کے عمل کے تئیں عزم کا اظہار کیا تھا اور طالبان رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان حکومت کے ساتھ راست بات چیت شروع کریں ۔ بات چیت جولائی میں پاکستان میں شروع ہوئی تھی تب سے یہ تعطل کا شکار ہے ۔
Action Against Afghan Taliban And Talks Can't Go Together: Nawaz
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں