قانون کے اقبال کے لئے کیسی ہوس؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-08-13

قانون کے اقبال کے لئے کیسی ہوس؟

Yakub-Memon-hanged
ایک چیز سب کو نظر آتی ہے کہ جہاں ایک گناہ گار قرار دیے گئے خونی یا سیاسی قاتل یا دہشت گرد کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں نہ تو حکومت اور نہ ہی عدالتیں منصفانہ انصاف دینے کی ہمت کرپاتی ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ جب قاتلوں کی ایک مختلف قسم کی طرح اجمل قصاب، افضل گرو اور اب شاید یعقوب میمن کی بات آتی ہے تو کیسے وہی مرکز، ریاست اور عدالتیں 'قانون اقبال' قائم کرنے کیلئے پرجوش ہو اٹھتی ہیں، یہ تمام مسلمان ہیں اور ان کے پھانسی کےپھندے تک پہنچنے کی واحد ومشترکہ وجہ ان کے پاس سیاسی حمایت کی کمی ہونا ہے

ابراہیم ٹائیگر میمن کے بھائی یعقوب میمن کو اس ماہ کے آخر میں پھانسی پر لٹکایا جانا ہے، اسے جس جج پی كوڈے نے سزا سنائی تھی، انہیں میں گزشتہ دو دہائیوں سے جانتا ہوں۔ دہشت گردی کے مقدمات کے لئے بنی ان عدالت کا میں رپورٹر ہوا کرتا تھا۔كوڈے نے جب یعقوب میمن کو سازش رچنے کے لئے موت کی سزا دی تھی، تو ان کے فیصلے نے کچھ لوگوں کو حیران کر دیا تھا جس میں یعقوب کے وکیل ستیش كنسے بھی شامل تھے۔کچھ سال پہلے كنسے نے'ریف ڈاٹ کام' کی رپورٹر شیلا بھٹ کو بتایا تھاکہیعقوب نے کبھی پاکستان میں فوجی تربیت نہیں لی، اس نے بم یا آر ڈی ایکس نہیں لگائے تھے، نہ ہی باہر سے اسلحہ لانے میں اس کا کوئی کردار تھا، جن لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی وہ ان جان لیوا سرگرمیوں میں سے کسی نہ کسی ایک میں شامل تھے۔ یعقوب کے خلاف ان میں سے کسی بھی جرم کے الزام نہیں تھے۔
لیکن جو بھی ہو اب اسے لٹکا دیا جائے گا اور اس طرح کےمعاملے میں ایسا پہلی بار ہو گا۔ یعقوب پر مقدمہ چلانےوالی اجول نکم (جنہوں نے اجمل قصاب کے بریانی مانگنے کے بارے میں مشہور جھوٹ بولا تھا) نے یعقوب میمن کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی تھی'جب اسے پہلی بار عدالت میں لایا گیا تھا،مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ ایک پرسکون اور کم بولنے والا شخص لگا تھا،وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے، لہٰذا ثبوتوں کے بارے میں اس نے تفصیل سے نوٹ لیے،وہ پرسکون اور الگ تھلگ رہنے والا تھا، کبھی دوسروں سے نہیں گھلتاملتا تھا اور صرف اپنے وکیل سے ہی بات کرتا تھا، وہ سمجھدار آدمی تھا اور اس نے اپنی پوری سماعت پر قریب سے نظر رکھی، عدالت میں اپنی موجودگی کے دوران میں نے بھی یہی بات نوٹس کی تھی میمن چپ تھا اور سب کچھ قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسےجذباتی ہوتےہوئے میں نے صرف ایک بار دیکھا ہے،یہ بات1995ءکے آخر یا1996ء کے آغازکی تاریخ کی رہی ہوگی۔اس وقت معاملے کی سماعت کر رہے جج جےاین پٹیل کئی ملزمین کو ضمانت دے رہے تھے، ایک امید تھی لیکن یہ میمن بھائیوں کے لئے نہیں تھی۔ منو یعقوب کا چیخنا اورجارحہو جانا (بغیر کسی کو چوٹ پهنچائے) یاد ہے اس نے کہا تھا'ٹائیگر صحیح تھا ہمیں واپس نہیں لوٹنا چاہئے تھا'۔
مجھے تعجب ہوگا اگر وہ ان برسوں میں بدل گیا ہو، میڈیا رپورٹر بتاتی ہیں کہ وہ ابھی ناگپور میں قید تنہائی (جو کہ سپریم کورٹ کے مطابق غیر قانونی ہے) میں ہے اور جلاد کا انتظار کر رہا ہےاس درمیان اس کے لئے عدالت سے راحت کا آخری کوشش چل رہی ہے(آخروہ بھی ناکام ہوگئی ہے کیوںکہ سپریم کورٹ نے اس کی عرضی خارج کردی ہے جس کے بعد یہ طےہوگیاہےکہ اسے 30؍ جولائی کو ناگپورسینٹرل جیل میں صبح 7؍ بج کر40؍منٹ پرپھانسی پرلٹکادیاجائےگا)
کیوں حکومت کو یعقوب مینن کو پھانسی نہیں دینی چاہئے؟اس پر زوردار دلائل دیتے ہوئے میرے دوست' فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام' کے آر جگن ناتھن نے ایک بہترین مضمون لکھا ہے وہ کہتے ہیںکہ کم سے کم اس وقت تک جلد بازی تو نہ کی جائےجب تک کہ فیصلہ گلے کے نیچے نہ اتر جائے، وہ دلیل دیتے ہیں کہ راجیو گاندھی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بےانت سنگھ کے قتل کے مقدمات میں جنہیں پھانسی دی جانی تھی انہیں ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ہے۔تمل ناڈو اسمبلی کی رحم کی اپیل کے بعد راجیو گاندھی کے قتل کرنے والے ستن، مر گن اور پیراريولن کی پھانسی کی سزا کم کر دی گئی تھی۔ بےانت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجاؤنا نے بڑے فخر سے اپنا گناہ قبول کیا تھا اور خود کو پھانسی دیے جانے کی مانگ کی تھی لیکن اسے ابھی تک زندہ رکھا گیا ہے شاید پنجاب اسمبلی کی کوششوں کی وجہ سے بھی ایسا ہے۔
جگن ناتھن لکھتے ہیں'ایک چیز سب کو نظر آتی ہے کہ جہاں ایک گناہ گار قرار دیے گئے خونی یا سیاسی قاتل یا دہشت گرد کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں نہ تو حکومت اور نہ ہی عدالتیں منصفانہ انصاف دینے کی ہمت کرپاتی ہیں۔ اب ذرا غور کیجئے کہ جب قاتلوں کی ایک مختلف قسم کی طرح اجمل قصاب، افضل گرو اور اب شاید یعقوب میمن کی بات آتی ہے تو کیسے وہی مرکز، ریاست اور عدالتیں 'قانون اقبال' قائم کرنے کیلئے پرجوش ہو اٹھتی ہیں، یہ تمام مسلمان ہیں اور ان کے پھانسی کےپھندے تک پہنچنے کی واحد ومشترکہ وجہ ان کے پاس سیاسی حمایت کی کمی ہونا ہے۔ میں اس سے متفق ہوں اور اسی وجہ سے میں مانتا ہوں کہ میمن کو پھانسی دے دی جائے گی حالاںکہ اوپر جن سیاسی قتل کا ذکر ہوا ہے وہ ممبئی دھماکوں سے پہلے ہوئے تھے۔
اس پھانسی کے ساتھ ہی دھماکے کیس میں عدالتی عمل سے میری طویل وابستگی کا خاتمہ ہو جائے گا،میں اس جرم کے ملزمین سے پہلے دن ایک رپورٹر کے طور پر ملا تھا، اس دن دیر شام میں ممبئی کے آرتھر روڈ جیل پہنچا تھا، جیل کے دروازے بند تھے لیکن وہاں درجن بھر خواتین کھڑی تھیں اوران میں سے زیادہ تر برقع پہنے تھیں۔یہ عورتیں اپنے شوہروں، بیٹوں یا بھائیوں جو زیر غور قیدی تھے اور جنہیں ضمانت نہیں ملی تھی کو گھر کا کھانہ دینے کی اجازت کے لئے درخواست جمع کرنا چاہتی تھیں۔ان عورتوں کو انگریزی لکھنی نہیں آتی تھی اور ان میں سے ایک نے مجھ سے لکھنے کو کہا تھا۔ میں نے ان سب کے لئے کی اجازت کی درخواست لکھے تھے۔جیسے ہی میں نے لکھنا ختم کیا، ایک پہرہ دار جیل کے دروازے سے باہر آیا اور جیل کے سب سے اوپری سرے پر ایک اندھیری کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا کہ جیلر مجھ سےملنا چاہتے ہیں۔میں هيرےمٹھ نامی جیلر کے پاس پہنچایا گیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کر رہا تھا؟ میں نے انہیں بتایا تو وہ نرم پڑے۔ انہوں نے خود ہیمجھے جیل دکھانے کی تجویز کیا اور پوچھا کیا آپ سنجے دت سے ملنا چاہتے ہیں؟میں نے ہاں کہا اور اس طرح سے میں دھماکے کے ملزم لوگوں کو جان پایاباضابطہ طور پر ان سے کورٹ اور جیل میں ملتے ہوئے۔ ان میں سے کچھ دت جیسے لوگ پھر سے جیل میں ہیں۔ پرسکون اور متوسط طبقہ سے آنے والے محمد جندران جیسے کچھ لوگ مار دیئے گئے ہیں اور اب یعقوب کو پھانسی پر لٹکانے کی تیاری ہے۔

***
sabirrahbar10[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

Why Yakub Memon is being hanged. Article: Aakar Patel, Urdu Translation: Sabir Raza Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں