روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ - سوچی کی خاموشی پر مختلف گوشوں سے سوالات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-05-22

روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ - سوچی کی خاموشی پر مختلف گوشوں سے سوالات

یانگون
یو این آئی
ایسے وقت جب میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں اقلیتی روہنگیا مسلمان ملک میں جاری تشدد سے بچنے کے لئے بحری راستے سے کشتیوں میں سوار ہوکر دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کے لئے بھٹک رہے ہیں اور پوری عالمی برادری اس انسانی بحران کے تئیں فکر مند ہے ، یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ حقوق انسانی کے لئے ہمیشہ سے آواز بلند کرنے والی میانمار کی جمہوریت حامی رہنما آنگ سون سوچی اس مسئلے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ خود اقوام متحدہ نے اس انسانی بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے پوری دنیا کے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے لئے اپنی سرحدین کھول دیں لیکن وہیں نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی جن کے ملک سے جڑا یہ مسئلہ ہے ، اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ رہی ہے ۔ ان کی یہ خاموشی جہاں لوگوں کو حیرت میں ڈال رہی ہے وہیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کررہی ہے کہ غالبا ایسا اس لئے ہورہا ہے کیونکہ یہ معاملہ میانمار میں انسانی بحران سے زیادہ ایک سیاسی معاملہ بن چکا ہے جس پر یہاں کا کوئی بھی لیڈر بیان دینے سے بچنا چاہتا ہے ۔ پچھلے ہفتے کچھ صحافیوں کی طرف سے مسلسل سوال کئے جانے کے بعد بالآخر سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی کے ترجمان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ روہنگیا برادری کے لوگوں کی شہریت سے متعلق مسئلے کا حل نکالا جائے لیکن پارٹی کی لیڈر سوچی کی طرف سے اس بارے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا ہے ۔ ملک کے روہنگیا اکثریتی راکھین صوبے کی سرحد بنگلہ دیش سے متصل ہے لہذا وہاں کشیدگی سب سے زیادہ ہے۔ مانڈلے کے بدھ مٹھ میں رہنے والے اہم پجاری آشن وراتھو سخت گیر نظریہ رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمان ان کے ملک آکر بودھ مذہب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی نظام قائم کرنے کی سازش کررہے ہیں ۔ ایسے میں ان لوگوں سے ملک کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے لوگ سوچی کو مسلمانوں کا حامی مانتے ہیں، غالباً اسی لئے سوچی اس مسئلے پر واضح طور پر کچھ نہیں کہہ رہی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان کے بیان سے روہنگیا اور بدھ کمیونٹی کے لوگوں کے مابین موجودہ کشیدگی میںمزید اضافہ ہوسکتاہے ۔ دوسری وجہ سیاسی بھی ہوسکتی ہے ۔

Aung San Suu Kyi's silence on the genocide of Rohingya Muslims

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں