پی ٹی آئی
دہلی پولیس نے جو سنندا پشکر قتل کیس کی تحقیقات کررہی ہے آج کہا کہ وہ پاکستانی صحافی مہر تارڑ سے پوچھ گچھ کرسکتی ہے ، جن کے ساتھ سنند اکی گزشتہ سال اپنی موت سے قبل بحث و تکرار ہوئی تھی ۔ دہلی پولیس کمشنر بی ایس بسی نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر تارڑ دے پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے کیوکہ وہ اس کیس پر روشنی ڈال سکتی ہیں ، بسی سے اس استفسارپر کہ آیا ایس آئی ٹی جو اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے، کیا مہر تارڑ سے پوچھ تاچھ کرے گی ، انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ہم ان سے بات چیت کریں گے کیونکہ وہ ایسی متعلقہ شخصیت ہیں جو اس کیس پر روشنی ڈال سکتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان سے بات چیت کریں۔ پولیس ذرائع نے بتایاکہ سرکاری ذرائع سے انہیں ایک رسمی درخواست روانہ کی جائے گی اور تحقیقات میں شامل ہونے کے لئے کہاجائے گا ۔ تارڑ نے دو ماہ قبل کہا تھا کہ وہ اس مسئلہ پر کسی بھی سوال کا جواب دینے تیار ہیں ۔ دہلی پولیس کی جانب سے سنند اکی موت کے سلسلہ میں قتل کیس درج کیے جانے کے ایک دن بعد 46سالہ تارڑ نے کہا تھا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی سوال پوچھنا چاہتا ہیں تو میں اس کا جواب دے سکتی ہوں ۔ یاد رہے کہ52سالہ سنندا، گزشتہ17جنوری کی رات دہلی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرہ میں مردہ پائی گئی تھیں۔ مہر تارڑ کے ششی تھرور کے ساتھ مبینہ معاشقہ پر ایک دن پہلے ہی سنندا کی مہر تارڑ کے ساتھ ٹوئٹر پر بحث و تکرار ہوئی تھی ۔ تفتیش کاروں نے گزشتہ ماہ تھرور سے پوچھ گچھ کی ہے ۔ بسی نے کہا کہ تفتیش کاروں نے امریکی ایجنسی ایف بی آئی سے درخواست کی ہے کہ وہ سنندا کے احشاء کا معائنہ جلد از جلد مکمل کرے۔ سنند اکے احشاء کا نمونہ ایف بی آئی کے حوالے کرنے ایک سینئر پولیس عہدیدار گزشتہ ماہ امریکہ گئے تھے۔ تفتیش کاراس زہر کے بارے میں تفتیش کرنا چاہتے ہیں جو ایمس کے ڈاکٹروں نے سنندا کی نعش میں پایا ہے ۔ ایمس کی رپورٹ میں زہر کی اس قسم کا پتہ نہیں چلا یا جاسکا جو سنندا کے جسم میں پایا گیا تھا ۔ بسی نے کہا کہ ہم نے انہیں (ایف بی آئی) سے کہا ہے کہ وہ یہ کام جلد از جلد مکمل کریں ۔ ان کے مختلف طریقے ہیں لہذا اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو ششی تھرور کو پوچھ تاچھ کے لئے دوبارہ طلب کیاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش کاروں نے مختلف آلات حاصل کیے ہیں جن کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
Sunanda Pushkar muder case: Pakistani journalist Mehr Tarar likely to be questioned by Delhi police
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں