8 مارچ - عالمی یوم خواتین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-08

8 مارچ - عالمی یوم خواتین

March-8-International-Women-Day
آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے ۔ اسلام چوں کہ خواتین کے معاملہ میں بڑا متشدد سمجھا جاتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ چند باتیں موقع کے مناسبت سے عرض کر دی جائیں۔جن لوگوں کی عقلوں پر پردے نہ پڑے ہوں اور انھوں نے کسی حد تک تاریخ عالم کا مطالعہ بھی کیا ہو، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت خلاصہ کائنات کی بعثت ہوئی ، عورت کے وجود تک کے متعلق غور وفکر کیا جا رہا تھا آیا یہ انسان ہے بھی یا اسے صرف انسان [مرد]کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟داماد کے نخرے برداشت کرنے کے خوف سے بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کا سگا باپ اسے زندہ درگور کر دیتا تھا۔اسلام نے اس انسان کو بتایا کہ ایک بیٹی کی بھی صحیح پرورش کرنے پر اسے جنت میں حبیب خدا ، رسول اللہ ﷺکی معیت نصیب ہوسکتی ہےاور جو بھائی اپنی بہن کی پرورش وپرداخت میں حصہ لے گا اس کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔ ماں کے تو قدموں کے نیچے جنت ہے۔اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت کے ساتھ لقمہ دینا بھی شوہر کے لیےدو رکعت نفل نماز کے برابر ہے۔ اسلام نے بیٹی کے اخراجات ، والد پر، بہن کے اخراجات بھائی پر ، بیوی کے اخراجات شوہر پر اور ماں کے اخراجات بیٹے پر ڈال کر نیز وراثت میں اس کا حصہ جاری کرکے عورت کومعاشی فکر سے بالکل آزاد کر دیا ہے۔ زندگی اجیرن ہونے کی صورت میں اس کے لیے طلاق و خلع کا راستہ کھلا رکھا۔ بیوہ کو ایک بارپھر زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا حوصلہ دیا اور اس کی اس بشری ضرورت کا لحاظ رکھنے کا اس کے اہل خانہ کو پابند بنایا۔ کہیں باہر آنے جانے کے لیے کسی نہ کسی محرم کو اس کی حفاظت کے لیے ساتھ جانے کو لازم قرار دیا ۔ ان سب کے با وجود خدا جانے وہ لوگ کیسے نابینا ہوتے ہیں جو اس قدر واضح تعلیمات کے بعد بھی حقوق نسواں کے نام پراسلام پر پھبتی کستے ہیں کہ اسلام نےعورت کو مقید کر دیا ، اس کیآزادی صلب کر لی اور اس کے حقوق کی پامالی کی وغیرہ وغیرہ۔
اسلام دین فطرت اور دین الٰہی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام کائنات کے خالق ہیں ۔اللہ تعالیٰ بخوبی جانتے ہیں کہ کون سی باتیں اور کون سی چیزیں اس کی تخلیق کردہ مخلوق کے لیے نفع بخش ہیں اور کون سی چیزیں ضرر رسا ں؟ اس لیے اس رب کائنات نے محض اپنے فضل و احسان سے، حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے خطوط کو بھی واضح کر دیا ۔ اسلام وہ مذہب ہے جو عورت کو تمام مذاہب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، ہاں انھیں مردوں کے برابر لاکر کھڑا نہیں کرتا، اس لیے کہ یہ ان کے لیے بہتر بھی نہیں بلکہ ان کے صنفی امتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوے انھیںان کے حقوق کا فایدہ پہنچاتا ہے، اور تمام عقلاکے نزدیک یہی صحیح بھی ہے ۔ اس لیے کہ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا کہاں کا انصاف ہے ؟
اسلام سب کے ساتھ انصاف کا قائل ہے نہ کہ برابری کا اوراسی میں سب کے لیے عافیت بھی ہے ۔ بھلا کون عقل مند اس پر راضی ہو سکتا ہے کہ ماں اور بیوی کو یا بیوی اور بہن کو یکساں حقوق دیے جائیں ؟ ہاں سب کو ان کے حقوق ضرور دیے جانے چاہئیں ۔ اسلام بھی یہی چاہتا ہے ، اس لیے وہ سب کے مقام کا لحاظ کرتے ہوے حقوق کی ادایگی کی تاکید کرتا ہے ۔ اسلام کی نظر میں مرد ، مرد ہے اور عورت ، عورت۔ دونوں آپس میں ایک دوسرے کا تکملہ اور تتمہ تو ہیں لیکن ایک دوسرے کا مثنیٰ اور نقل نہیں ۔
حقوق نسواں کا دم بھرنے والے بعض حضرات اپنے موقف کی دلیل دیتے ہیں کہ عورت و مرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، دونوں کی حیثیت برابر ہے، خدا جانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ گاڑی کے دونوں پہیوں کی اپنی متعین جگہ ہوتی ہے ، اگر دونوں پہیے غلطی سی بھی ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو گاڑی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ، بلکہ فورا گرپڑے گی ۔ بس ایسے ہی عورت و مرد کا معاملہ ہے ، دونوں کے کچھ خصوصی امتیازات ، مناصب اور ذمہ داریاں ہیں ۔ جب تک یہ دونوں اپنے مناصب و ذمہ داریوں کا لحاظ رکھیں گےدنیا کا کاروبار بجا طور پر چلتا رہے گا اور جب اس حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کی جاےگی توعدم توازن اوراس کے برے ثمرات کا وقوع پذیر ہونا لازمی ہے ۔عورت و مرد میں جس حد تک مساوات ممکن تھی اسلام نے اس سے ہرگز روگردانی نہیں کی لیکن جہاں یہ مساوات قانون فطرت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون عدل کے معارض ہو اسلام اس کا قایل نہیں ۔ اب تو نفسیات اور حیاتیات وغیرہ کے ماہرین نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ عورتیں ، مرد کے مقابلے میں فطری طور پر منفعل مزاج ، عجلت پسند اور اعصابی طور پر نازک واقع ہوئی ہیں ۔ اس حقیقت سے انحراف کرنے اور فطرت سے بغاوت کرنے کا خمیازہ انسان کو ہمیشہ بھگتنا پڑا ہے اورآج دنیا میں ہرسُوایسے ہی غلو کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔
اس مضمون کو ہدیہ قارئین کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سماج میں مرد وعورت ، دونوں میں سے کسی کی صنفی خصوصیات کو مجروح نہ کیا جاے اور ہر دو کی مخصوص صلاحیتوں کو پوری طرح بروےکار لانے کا پورا موقع فراہم کیا جاے تاکہ عورت و مرد دونوں پوری جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہیں ۔ تب ہی ممکن ہوگا کہ دونوں میں سے کوئی نہ احساس برتری کا شکار ہو اور نہ احساس کمتری کا ۔
واللہ ھو الموفق

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

March 8 - International Women's Day. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں