رائٹر
ڈنمارک میں تعلیم کی ایک تنظیم نے گستاخانہ خاکوں کو اسکول کی درسی کتابوں میں شامل کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈی آر نا ہیڈرویب سائٹ کے مطابق مذہبی تعلیم کے اساتذہ کی تنظیم کامطالبہ ہے کہ ان خاکوں کو درسی کتابوں میں جلد ازجلد شامل کیاجانا چاہئے ۔ تنظیم کے صدر جان رائڈ ھل نے کہا کہ اس سے مذاہب کے درمیان رشتوں، سماجی اور سیاسی مسائل کی معلومات کے مطالعہ کا موقع مل سکے گا۔ ڈنمارک کی وزارت تعلیم نے کہا کہ ابھی بچوں کو خاکوں کے بارے میں پڑھایاجانا لازمی نہیں ہے تاہم بہت سے اسکول اسے تاریخ یا سماجیات کے درجوں میں پڑھاتے ہیں۔ ڈنمارک کے بعض سیاسی حلقے اس مطالبہ کی حمایت میں ہے جب کہ ڈنمارک کی دائیں بازو کی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کا مطالبہ ہے کہ اسے مذہبی تعلیم کی کلاسس میں لازمی طور پر شامل کیاجانا چاہئے ۔ دوسری جانب کنزرویٹیوز اور سوشل ڈیمو کریٹس نے کہا کہ وہ اسے لازمی قرار دئیے جانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اساتذہ کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ کیا پڑھانا چاہتے ہیں ۔ کنزرویٹیو پارٹی کی ترجمان نے کہا کہ اسکولوں میں ان خاکوں کا استعمال بہت فطری ہے ۔ خیال رہے کہ یہ خاکے پہلی بار ڈنمارک کے جیلینڈ پوسٹن اخبار میں2005میں شائع ہوئے تھے اور اس پر مسلم ممالک میں احتجاج کئے گئے تھے۔ فروری میں کوپن ہیگن کے ایک کیفے میں اظہار رائے کی آزادی پر ہوئے ایک اجلاس میں ایک شخص نے گولی چلا دی تھی جس میں ایک شخص کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اس خاکہ کو بنانے والے اصلی کارٹونسٹ لارس ولکس کا خیال ہے کہ دراصل وہ اس حملہ کا نشانہ تھے۔
Denmark: Calls for controversial cartoons in school textbooks
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں