فیس بک گروپ اردو افسانہ فورم - ایک تعارفی نوٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-23

فیس بک گروپ اردو افسانہ فورم - ایک تعارفی نوٹ

FB afsana-forum-aalmi-nishst-2015
جہاں تک ممکن ہوسکا میں نے اس سلسلے میں تحقیق کی کہ آخر سوشل میڈیا پر اردو افسانہ کی ترقی و ترویج کے سلسلے میں سنجیدگی کے ساتھ کیا اقدامات کئے جارہے ہیں نتیجہ یہ نکلاکہ سو شل میڈیا پر آن لائن اردو افسانہ کی ترقی و ترویج اور نوجوان قلمکاروں کو افسانہ نگاری کی ترغیب کے لئے سب سے مقبول اور اہم فورم " اردو افسانہ فورم " ہے جسے غالبا 2010 میں ادبی جریدہ "راوی" کے ایڈیٹر اور معروف افسانہ نگار ابرار مجیب نے شروع کیا تھا۔
فی الوقت اس فورم پر سیکڑوں افسانہ نگار ،ناول نگار اور محققین موجود ہیں ۔اردو کے نامور ادیب اور عظیم تخلیق کار اس فورم پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ورنہ آجکل ادباءکو اپنے ستائشی قصیدے سننے اور لکھوانے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔اس فورم کی بڑی خاصیت یہ ہے کہ تنقید بے لاگ ہوتی ہے لیکن تنقید کو آلۂ جراحی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ۔یوں بھی معاصر عہد میں قاری کی کمیابی ہے اگر کوئی اپنی تخلیق کے لئے قاری تلاش کرلے تو یہ فنکار کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے ۔فورم پر نہ صرف ذہین اور با صلاحیت قاری موجود ہیں بلکہ ایسے قاری بھی ہیں جنکی کئی تصانیف موجود ہیں اور وہ خود ذہین اور باصلاحیت تخلیق کار ہیں ۔
یوں بھی آجکل نئے افسانہ پر بات نہیں ہوتی ہے چالیس پچاس سال کے لکھنے والوں کو نیا کہکر پیش کیا جا رہا ہے انکی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن نیا افسانہ جن امکانات کی تلاش میں ہے اور معاصر افسانہ سے نئے افسانہ کی جو انفرادیت ہے اس پر مذاکرہ کی ضرورت ہے یہ کمی کسی حد تک فورم پر دور ہوتی نظر آتی ہے ۔
نئے افسانہ پر معاصر تخلیق کار (جنکی عمر چالیس سال سے تجاوز کرچکی ہے ) صحت مند تنقید کرتے ہیں اور تعمیری رویوں کو پیش نظر رکھا جاتاہے اکثر ایسی بحثیں معرض وجود میں آتی ہیں جنہیں ادبی جرائد میں ڈسکس ہونا چاہئے لیکن ادبی جرائدیا تو تعلق نوازی میں مصروف عمل ہیں یا ادبی پروپیگنڈہ کے ترجمان بن کر رہ گئے ہیں (کچھ جرائد اس گند گی سے پاک ہیں اور نئے اقدامات کررہے ہیں ) لہذا وہ ادبی جرائد جو افسانہ فورم کی تخلیقات کو اپنے صفحات پر زینت بخشنے کا کام کرتے ہیں وہ ان مباحث کو ڈسکس کر سکتے ہیں جیسا کہ "ثالث " میں ایک مذاکرہ اس ضمن میں شائع بھی ہوا ۔

ابتدا میں اس فورم پر صرف چند فنکار اپنی تخلیقات پیش کرتے تھے جن پر باقاعدہ بحث و مباحثہ ہوتا تھا کیونکہ 2010 میں سوشل میڈیا کا اتنا چلن نہیں تھا جتنا کہ فی الوقت ہے لہذا اس وقت اس فورم پر بھی وہی لوگ موجود تھے جو جدید ٹیکنالوجی سے فوراً خود کو منسلک کرلیتے ہیں ۔آہستہ آہستہ افسانہ فورم ایک قبیلے کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔کئی ممالک کے لکھنے والے فورم سے جڑتے گئے اور آج عالم یہ ہے کہ ہر روز درجنوں افسانہ نگار اپنے افسانے پیش کرتے ہیں جن کا مطالعہ کرنے کے بعد سیکڑوں قارئین اپنی رائے بھی دیتے ہیں ۔

ابرار مجیب ہی اس فورم پر اچھے ایڈمنز کو لیکر آئے جن میں وحید قمر اہم ہیں۔ وحید قمر خود ایک اچھے افسانہ نگار ہیں جنکی تخلیقات ہندو پاک کے علاوہ دیگر ممالک کے اردو جرائد میں اہتمام سے شائع ہوتی رہتی ہیں ۔وحید قمر کی کوششوں سے فورم کی ایڈمنز میں نورالعین ساحرہ بھی شامل ہوئیں جنکی ذہانت اور خلاقیت کی بنا پر فورم میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ فورم کے ذمہ داران میں افشاں بخاری ،زبیر سیاف اور مریم ثمر شامل ہیں جنکی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں فورم دن بہ دن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ فورم کے بنیادی مقاصد میں ایک اہم مقصد یہی رہا کہ سوشل میڈیا پر اردو افسانے کی ترویج و ترقی نیز نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ذہنی آبیاری ہو۔ اور فورم اپنے اس بنیادی مقصد میں بڑی حدتک کامیاب ہے۔
کیونکہ کئی نام ایسے ہیں جو پہلی بار فورم پر متعارف ہوئے اور آج کئی اہم جرائد اور اخبارات میں وہ لکھ رہے ہیں ۔اگر ان پانچ سالوں میں اردو افسانہ فورم نے ادب کواچھا لکھنے والے صرف پانچ نئے افسانہ نگار بھی دیے ہوں تو میرے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے ۔

ابرار مجیب کے مشورے کے بعد 2013 میں فورم پر پہلا افسانوی میلہ منعقد ہوا جس میں پوری دنیا سے تقریبا 101 افسانہ نگاروں نے شرکت کی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ ہر سال کئی افسانوی نشستوں کا اہتمام فورم کی جانب سے کیا جاتاہے جس میں مہتممین اپنی مصروفیات کو پس پشت ڈال کر افسانوں کے موضوع کی مناسبت سے بینر بھی خود ڈیزائن کرتے ہیں جو اپنے آپ میں بڑی بات ہے۔

اس فورم پر پیش کئے گئے افسانوں کو کئی اہم جرائد اپنے صفحات پر زینت بخشتے ہیں جن میں ہندوستان سے "راوی" ، "ثالث" ، "در بھنگہ ٹائمز" ، " ابجد " اور "احساس۔ جرمنی" ، "جگنو۔ پاکستان" شامل ہیں اور ویب سائٹ عالمی پرواز ڈاٹ کام پر بھی پیش کئے جاتے ہیں ۔
اس اقدام سے ایسے نئے لکھنے والے جو ادبی پروپیگنڈہ کی وجہ سے رسائل و جرائد میں شائع نہیں ہو پاتے یا جنکے پاس اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لئے کسی کا سفارشی خط نہیں ہوتا انکے افسانے اہتمام سے شائع ہوتے ہیں اور اس طرح نیا ٹیلینٹ نکھر کر سامنے آ رہاہے ۔ اس فورم نے گذشتہ چند سالوں میں جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق اردو افسانے کی ترویج و ترقی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور فورم پر یونیورسٹیز کے اساتذہ ،جرائد کے مدیران کہنہ مشق افسانہ نگاروں اور محققین کو مدعو کیا تاکہ وہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اپنی تخلیقات نوجوان نسل کی رہنمائی کے لئے پیش کریں اس طرح وہ تخلیق کار جو اچھی تحریریں پڑھنے کے لئے ترستے تھے انہیں اس فوم کے توسط سے اچھی تحریریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں ۔
فورم پر ہندوستان و پاکستان کے علاوہ برصغیر کے اہم لکھنے والے موجود ہیں جن میں کچھ اہم نام یوں ہیں فرخ ندیم ،قیصر نذیر خاور ،اقبال حسن آزاد ،پیغام آفاقی ،نعیم بیگ ،اقبال حسن،الیاس دانش ،رحمٰن عباس ،اسلم جمشید پوری ،اختر آزاد اور ایسے ہی ڈھیروں نام فورم پر فعال رہتے ہیں ۔ان کے علاوہ خصوصی افسانوی نشستوں کے اہتمام کے موقع پر اہم فنکاروں کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ فورم پر ادبی ماحول برقرار رہے نیز افسانوں پر تعمیری تنقید بھی ہوتی رہے ۔
کچھ صاحبان نظر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب سوشل میڈیا تخلیق کار کی فکری جہات متعین کریگا اور فورم پر کی جارہی تنقید ادب کا رخ پھیر سکتی ہے؟ ظاہر ہے ایسے معترضین ابھی سوشل میڈیا کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے ہیں ۔سوشل میڈیا جب عالمی پیمانے پر ملکوں کی سیاست میں اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو پھر ادب میں کیوں نہیں ؟

سوشل میڈیا پر اردو افسانہ میلہ یا افسانوی نشستوں کا اہتمام پہلی بار اسی فورم پر ہوا جو آج بہت ترقی کرچکا ہے ۔اس فورم کو اپنی انفرادیت اور کارناموں کی بنا پر عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی اور آج ہر اس ملک میں جہاں اردو زبان بولنے والے موجود ہیں کچھ نہ کچھ لوگ اس فورم کا حصہ ہیں۔ نشست کے موقع پر روزانہ کم از کم دو افسانے وال پر پیش کئے جاتے ہیں تاکہ قارئین پر بوجھ نہ بن جائے ۔افسانوں کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے جسکی دلیل وہ تجزیہ اور تبصرے ہوتے ہیں جو افسانہ کی پرتیں کھول کر اسکی خوبیوں یا کمیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔آج کا المیہ یہ ہے کہ لوگ بغیر ادب کا مطالعہ کیے تنقید لکھتے ہیں جسکا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ تخلیق کی اہمیت و افادیت پر بات نہیں ہوپاتی بلکہ وہ تحریریں بھی سر سر ی ہوتی ہیں ۔اسکے شواہد ہماری اردو تنقید ی کتابوں میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں ۔آج سیمیناروں کا یہی حال ہے کہ اگر کسی کے فن پر بات ہوتی ہے تو مقالہ نگار اپنی تحریروں میں اندازوں پر گفتگو کرتاہے بہت کم ایسے لکھنے والے موجود ہیں جو واقعی پڑھ کر فن پر تنقید کرتے ہیں ۔

اس وقت اردو افسانہ فورم پر "عالمی افسانہ نشست 2015 " کا آغاز ہوچکاہے ۔ روزانہ نئے افسانے وال پر پیش کئے جارہے ہیں اور تنقید و تبصرے کے مثبت رویے سامنے آرہے ہیں اگر کوئی حد اعتدال سے تجاوز کرنے کی کوشش کرتاہے تو فورم کے ایڈمنز فوراََ متحرک ہوجاتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں اداکرتے ہیں تاکہ فورم بھی ہماری تنقیدی کتابوں کی طرح تعصب اور جانبداری کا شکار نہ ہو جائے۔
بہر حال قابل مبارکباد ہیں "اردو افسانہ فورم " کے ایڈمنز جنکی جانفشانیوں اور کوششوں کی بنا پر آج افسانے کے مخلص قارئین کو ایک جگہ اتنا مواد دستیاب ہو رہا ہے ۔

اے مرے کاسہ گر دہر عجب ہے یہ طلسم
روز ایک رنگ نیا خاک سے ایجاد کرے

An introductory note on Facebook group "Urdu Afsana"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں