عزیز احمد نے لندن یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کچھ وقت سیر وسیاحت میں گزارااسی عرصے میں وہ فرانس کے سوربون یونیور سٹی سے بھی وابستہ رہے 1942ء سے 1947ء تک نظام آف حیدرآباد کی بہوشہزادی درشہوار کے سیکریٹری مقرر ہوے اورتقریباًچار سال تک منسلک رہے ۔1949ء میں تقسیم ہند کے المیے کے بعد جا معہ عثمانیہ میں استفعٰی دے کر پاکستان چلے گئے وہاں حکومتِ پاکستان کے فلم و مطبوعات کے ڈائیریکٹر مقرر ہوے ۔
عزیز احمد کی زندگی کا سفر مشاہدات تجربات کی نظر رہا تعلیمی اوقات میں ریاست حیدر آباد کے وظیفے پر لندن جانا وہاں کی تہذیب ،تمدن ومعاشرت کا مشاہدہ کرنا،جو تہذیب ہندوستان کی معاشرت سے بالکل مختلف تھی لندن سے واپسی پرجا معہ عثمانیہ میں استاد کے عہدے پرکام کرنے کاتجربہ ابتداء مراحل میں ہی تھا کہ انھیں نظا م آف حیدر آباد کی بہو کا سیکریٹری مقرر ہو نے کا شرف حاصل ہوا شاہی خاندان سے منسلک ہونے کی وجہ سے انھیں شاہی خاندان کی تہذیب، تمدن ،ثقافت ،معاشرت اور شاہی افرادِخانہ کے ساتھ سفرکرنا اٹھنا بیٹھنا جس کی وجہ سے اُن کی معا شرتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملاجس کا اظہار جا بجا ان کے فن پاروں دکھائی دیتا ہے۔ ان کے وسیع مطالعے و مشاہدہ اور تجربات نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیے ،یہی وجہ ہے کے عزیز احمد کا اسلوب اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے منفرد نظر آتا ہے جس وقت عزیز احمد نے افسانوی دنیا میں قدم رکھاوہ دور ترقی پسند تحریک کے آغوش میں سانس لے رہا تھا۔ تقریباً ہرفنکار، افسانہ نگارشعرا ،ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ترقی پسند تحریک نے فن کاروں کو ایک مقصد فراہم کیا تھا،جس کے نقشِ قدم پر چل کر افسانہ نگارفن کی آبیاری کررہے تھے۔ افسانوں میں معاشرتی ،تہذیبی تمدن ،ثقافتی اقدار پر افسانے کے موضوعات کوایک نیا موڑ دیا جارہا تھا۔یہ دور ادب کی زرخیزی کا دور تھاجس میں شاہکار افسانے تخلیق کئے جارہے تھے۔
سردار جعفری ترقی پسند تحریک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
ترقی پسند مضامین نے ادب کے اس تاریخی ،مادّی اور عوامی تصّور کو اپنایاجس کے نزدیک ادب نہ تو چند پیٹ بھروں کی میراث ہے،نہ ذہنی عیاشی کا سامان ہے۔وہ ادب کو عوامی ملکیت قرار دیتے ہیں اور اس پر زندگی کو سُدھارنے کا مُقدس فرض عائد کرتے ہیں۔ 1عزیز احمد کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں منشی پریم چند،جوش ،ڈاکٹر عابد حُسین ،نیاز فتح پوری ،قاضی عبدالغفار،فراق گورکھپوری،مجاز،خواجہ احمد عباس ،وغیرہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ان فنکاروں کے علاوہ شیر محمد اختر،محمد حسن عسکری،آغا بابر، اشفاق احمد، وغیرہ نے حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی اور ترقی پسند نظریات سے اختلاف رکھتے ہوئے سیاست گری کے بجائے سیاست کے موضوعات کو ادب کا موضوع بنایا۔
عزیز احمد نے ترقی پسند تحریک کے خدوخال منشور کے دائرے کار میں محیط رہ کر ادب تخلیق کرنا ادب کو پابندیوں میں جکڑنے کے مترادف سمجھااور ترقی پسند تحریک سے ہٹ کر اپنا الگ راستہ نکالااور تا عمر اسی پر چلتے رہے۔
عزیز احمد نے افسانہ نگاری کی شروعات ریاست مہاراشٹر کے چھوٹے سے شہر عثمان آبادسے کی ہے۔اس بارے میں نورالحسنین رقم طراز ہیں ۔
" جنوبی ہند میں عثمان آباد میں مقیم عزیز احمد کا پہلا افسانہ کشاکش جذبات مکتبہ حیدرآبا جلد 4 شمارہ 2 نومبر 1929ء کو شائع ہوتا ہے۔ " 2ترقی پسندتحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے افسانہ نگاروں نے شاہکار افسانے تخلیق کئے۔لیکن عزیز احمد نے تحریکات و رجحانات سے انحراف کرتے ہوئے اپنے لئے نئی راہ کا انتخاب کیااور ساری زندگی اپنی ہی روش پر چلتے رہے۔اس انحراف کی وجہ سے قارئین کو عالمی معاشرت ،سیاست، تاریخ ،تہذیب و تمدّن سے واقفیت ہوئی۔عزیز احمد نے ہندوستانی تہذیب تمدّن معاشرت کے ساتھ ساتھ بین الااقوامی تاریخ تہذیب و معاشرت کو اپنی تخلیقات میں برتا اورفن پاروں کو زندہ جاوید کردیا۔
عزیز احمد کا افسانہ" زرخرید "شہر ممبئی اور حیدرآباد کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کا عکاس ہے۔بمبئی اور حیدرآباد کی تہذیب تمدن اور معاشرت میں تقابل بھی کرواتا ہے۔
اقتباس
" میجر نذیر کے ساتھ امجدحُسین پستین سی روڈ پتیت ہال کے قریب کھڑا بس کا انتظار کرہا تھا ۔پندرہ منٹ گذرے ،آدھا گھنٹا ہوا۔اور میجر نذیر نے پینتالیسویں مرتبہ اپنے پتلون کی کریزٹھیک کی حیدرآباد میں پونیفارم کی پابندی تھی۔ 3
زرخرید افسانے میں عزیز احمد نے تین کرداروں کے شوق ،عادات و اطوار کے ذریعے دونوں شہروں کی تہذیب ،تمدن ومعاشرت کا تقابل کیا ہے۔میجر نذیر کا تعلق بمبئی ریجمنٹ سے ہے جبکہ امجد حسین کا تعلق حیدرآباد سے ہے اس افسانہ میں میجر نذیر کو اپنے کپڑوں کی کریز پینتالیسویں مرتبہ درست کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ امجد حُسین جو فولاد کی فیکٹری کا مالک ہے وہ اپنے کپڑوں پر کوئی احتیاط نہیں رکھتاہے جبکہ یونیفارم کی پابندی حیدرآباد میں تھی اور سلیقہ میجر نذیر برتتے ہیں ۔
اقتباسامجد حُسین کا تعلق ریاست حیدرآباد سے ہے ۔امجد کے قیام بمبئی کے دوران میجر نذیرکا نوکر اسے دھنی کہہ کر آواز دیتا ہے۔دھنی مراہٹی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مالک کے ہیں یہاں مہاراشٹری معاشری زندگی کی عکاسی کے لیے عزیز احمد نے بمبئی کی عام بول چال زبان کا استعمال کیا ہے۔دھنی کی آواز پر امجد حُسین سمجھ جاتا ہے کہ نذیر کانوکر مالک کے لیے دھنی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔جبکہ حیدرآبادی تہذیب اور معاشرت میں دھنی کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ہے۔اسی مناسبت سے عزیز احمد نے نسوانی کرداروں کے نام بھی جیسے سرلابائی ، چھایادیوی، مہارانی پیپل نگر ، وغیرہ کرداروں کے تہذیبی، معاشرتی ،سیاسی ،پہلوؤں کوافسانوی فضاء میں اجاگر کیا ہے۔
"اس دن چوکیدار نے اسے سات بجے اُٹھادیا 'دھنی' ادھر ماہیم سے کوئی بائی تم سے بات کرنے مانگتا "۔۔۔۔۔۔اس وقت کون بائی ہوں گی اور وہ بھی ماہیم سے امجد حُسین کھڑبڑا کے اُٹھا"۔ 4
اقتباس
"گھوڑے جیتتے اور ہارتے رہے،انسان شرطیں لگاتے رہے ،پچھتاتے رہے۔عورتیں اپنی ساڑیویں اور میکس فیکٹری کے کریموں ،پوڈروں ،اور لبوں پر لگانے کی سُرخیوں کی نمائش کرتی رہیں ،ادھر دیکھو اشوک کمار جودھپوری کوٹ پہنے بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شارک اسکن کا کوٹ گلے میں دوربین موتی لال ایکٹر کے سوا کون ہو سکتا ہے۔بڑا مسخرا ہے۔ 5
عزیز احمد نے اس اقتباس میں بمبئی کے ریس کورس کا نقشہ کھینچا ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی بمبئی ریس کورس گھوڑوں پر روپیہ لگانے والے رئیس زادوں کی تفریح گاہ ہوا کرتا تھا۔جہاں مردوں کے ساتھ ان کی معشوقائیں اور فیشن ایبل داشتائیں ،فیشن پرستی کے نام پر ،ریس کورس میں گھوڑوں پر داؤ لگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ بمبئی ہندوستان کا اہم ترین شہر،تجارت کی بڑی منڈی کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا تھا۔
اسی لیے بمبئی میں نواب، رائے بہادر ، جاگیردار، فلمی ہیرو،ہروین،مہارانی اور دیگر فیشن ایبل خواتین اپنی معاشرتی زندگیوں کے تاریک پہلوؤں کی تسکین کی خاطر ریس کورس آتے ہیں۔عزیز احمد نے اپنے افسانے زرخریدکے ذریعے معاشرتی ،تہذیبی، پہلوؤں کی عکاسی کو قلمبند کیا ہے۔زرخرید افسانے کی اہم کردار شیریں نیاز بھائی ہے ۔افسانہ جس کی زندگی کے نشیب و فرازکے ارد گرد گھومتاہے۔شیریں الٹرا ماڈرن لڑکی ہے جب وہ اصغر سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کی محبت میں گرفتار رہتی ہے،اصغر کو چھایا دیوی کے ساتھ دیکھ کر اصغر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رشتہ توڑ دیتی ہے اور راج رتن جوہری کی داشتہ بن جاتی ہے۔
اقتباساس اقتباس میں عزیز احمد نے شیریں کو خواہشات کا غلام ظاہر کیا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کے دوسروں کے سامنے نچھاور کر دیتی ہے۔افسانے کے دوسرے اقتباس کو دیکھنے سے تصویر کا دوسرا رُخ سامنے آتا ہے۔
"لیکن میرے خیال میں تو یہ محض جواہرات کی چمک ہے اکثر شریف لڑکیاں جواہرات اور بنارسی ساڑیوں کی وجہ سے جوہریوں اور بنیوں کے ہاتھ گروی ہوجاتی ہیں " 6
" لیکن وہ کسی اچھے لڑکے سے شادی کیوں نہیں کرلیتی ۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ بدنام ہوچُکی ہے اس سے شادی کون کرے گا،اب بہت دیر ہوچُکی ہے۔ 7عزیز احمد نے شیریں کے کردار کومثال بناکر سماج میں بسنے والے ایسے طبقے کی طرف قارئین کی کو لے جاتے ہیں جہاں اکثر و بیشتر لڑکیاں الٹرا مارڈن فیشن کے نام پر مردوں کی تسکین و تفریحات کاباعث بنتی ہیں ۔تو سماج میں غریبی مفلسی اور خاندان کی ذمہ داریوں کو نبھانے والی لڑکیاں جاگیرداروں،ریئس زادوں کی تفریحات کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔افسانے کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالنے سے شریں کی غربت،خاندان کی معاشی تنگدستی،چھوٹے بھائی کابوجھ جیسے معاشرتی مسائل کے حل کی خاطر شریں راج رتن جوہری کی 'زرخرید ' بن جاتی ہے۔جو اپنے دوستوں کے لیے کچھ وقت نہیں نکال پاتی اور نہ ہی ان کاساتھ دے پاتی ہے۔وہ اپنی خواہشات کو اپنی تفریحات کو پس پشت ڈال کر زرخریدغلام کا کردار بخوبی نبھاتی ہے۔جبکہ کسی زمانے میں شریں، نذیر اور امجد کا ساتھ دیا کرتی تھی ان کے ساتھ ہوٹلوں میں،تفریحات کے مقامات پر نظر آیا کرتی تھی۔وہ دوستوں کی دوست تھی لیکن آج وہ سماج میں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی شریں ہے جس کی وجہ سے وہ دونوں دوستوں کے ساتھ تفریح مقام پر جانے سے صاف انکار کردیتی ہے۔
عزیز احمد نے زرخرید افسانے میں اُس دور کے سماجی ،معاشی اقتصادی اور سیاسی حالات کی عکاسی کی ہے۔اس دور میں ترقی پسند تحریک بھی انھیں موضوعات کو افسانوں میں ڈھالنے کا کام کرہی تھی ۔عزیز احمدکا خاصہ ہے کہ انھوں نے شاہی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسی میں گذاراتھا اسی لیے یہ انھیں کا حق تھا کہ وہ اس شاہی زندگیوں میں لگے داغوں کی تفصیلی وضاحت کر سکیں۔ اسی لیے عزیز احمد نے خود کہا تھا میرے افسانے میرے مشاہدات کا مظہر ہیں۔
***
عبدالمجاہدانصاری
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اُردو
کوہ نور آرٹس کامرس اور سائنس کالج خلدآباد، اورنگ آباد۔
aa.mujahid[@]gmail.com
عبدالمجاہدانصاری
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اُردو
کوہ نور آرٹس کامرس اور سائنس کالج خلدآباد، اورنگ آباد۔
aa.mujahid[@]gmail.com
A cultural and social analysis of a short-story of Aziz Ahmed. Article: Abdul Mujahid Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں