مودی راج میں قاتلوں کی عزت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-01

مودی راج میں قاتلوں کی عزت

amit-shah-bjp
ہندوستان کو دنیا بھر کے ممالک میں اپنی بعض منفرد خصوصیات کی وجہ نمایاں حیثیت اور عزت و احترام حاصل ہے۔ جن کی وجہ سے ہر ہندوستانی خود کو ہندوستانی کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ آج ملک کچھ ایسے حالات سے گزر ررہا ہے جس کی وجہ سے عالمی برادری میں آج خود کو ہندوستانی کہہ کر فخر سے سراٹھانے والا کل پتہ نہیں فخر سے سر اٹھانے کی جگہ اپنا سرجھکانے پر مجبور ہوگا کیونکہ آج ہندوستان میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل کی پرستش کے لئے مندر تعمیر کئے جانے کی تجویز پر عمل شروع ہوگیا ہے۔ ناتھورام گوڈسے(جس کو پھانسی کی سزادی گئی تھی) کی پرستش کے لئے ہندو مہاسبھا نے مندر تعمیر کرنے کا نہ صر ف اعلان کیا ہے بلکہ مندر کی تعمیر کے لئے مندر کی مجوزہ زمین پر دھوم سے دھام ’’بھومی پوجن‘‘ کی رسم بھی ادا ہوچکی ہے۔ ہندوستان شائد دنیا کا پہلا ایسا بدقسمت ملک ہے جہاں پر اپنے بابائے قوم (مہاتما گاندھی) کے قاتل کو خدا مان کر اس کی عبادت کرنے کے لئے اس کی مورتی کے لئے مندر تعمیر کیا جارہا ہے! اس واقعہ پر مرکزی حکومت اور وزیر اعظم خاموش ہیں اور یو پی کی ریاستی حکومت کا رویہ ناقابل فہم ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سہراب الدین قتل مقدمہ میں بھی سی بی آئی نے صدر بی جے پی امت شاہ کو بچالیا ہے۔ کسی ریاست میں بم کا ایک دھماکہ ہوتو مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ رپورٹ طلب کرنے میں تاخیر نہیں کرتے ہیں۔ مغربی بنگال میں بردوان کے معمولی دھماکے کی تحقیقات مرکزی تحقیقاتی ایجنسیاں وزیر اعلیٰ ممتابنرجی کی مرضی کے خلاف تحقیقات شروع کردیتی ہیں۔ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر حرکت میں آجاتے ہیں لیکن گوڈسے کی پوجا کے لئے مندر کی تعمیر کا اعلان درجنوں خوفناک بموں کے دھماکوں سے زیادہ بھیانک دھماکہ ہے لیکن واہ رے اچھی حکمرانی کے دعویدار نریندر مودی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے کیونکہ ہندومہاسبھا بھی سنگھ پریوار سے الگ نہیں ہے ویسے اس مسئلہ پر آر ایس ایس کی نریندر مودی حکومت (جی ہاں بی جے پی کی حکومت دراصل آر ایس ایس ہی کی حکومت ہے) کے رویہ پر کسی تعجب و حیرت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ واجپائی کی حکومت نے مہاتما گاندھی کے ہی قتل میں ملوث رہنے کے ملزم اور فرقہ پرست ساورکر جیسے فرد کی تصویر پارلیمان کے سنٹرل ہال میں آویزاں کی تھی (افسوس اس دور کی قائد حزب اختلاف سونیا گاندھی نے احتجاج کی تک ضرورت نہیں سمجھی تھی) اور اب مودی حکومت نے واجپائی اور مدن موہن مایویہ کو بھارت رتن سے سرفراز کیا ہے۔ واجپائی کی حدتک تو بھارت رتن کی بات کراہیت کے ساتھ یا طوعاً وکرہاً قبول کیا جاسکتا ہے لیکن مدن موہن مایویہ کو صرف ہندتو کے علم بردار ہی بھارت رتن کا حق دار کہہ سکتے ہیں۔ ملک کی جنگ آزادی کے زمانے کی تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والا فرد بھی مدن موہن مایویہ کی کوکٹر فرقہ پرست قائد کی حیثیت سے جانتا ہے گوکہ بی جے پی کے بانی شیاماپرشا مگرجی کا تعلق بھی ہندومہاسبھا سے ہی تھا اس لئے مودی ہوں یا کسی اور بھاجپائی کے لئے بی جے پی اور جن سنگھ کی طرح ہندو مہاسبھا بھی اہم اور قابل احترام اور تقلید ہے۔ تاہم حکومت سے باہر رہنے والی سیاسی جماعت (خواہ و ہ کوئی جماعت ہو) کو برسر اقتدار آنے کے بعد ذمہ داری کااحساس کرتے ہوئے اقتدار کی مسند کا احترام کرنا چاہئے۔ آج مودی مدن موہن مالویہ کو بھارت رتن دیاگیا ہے تو پھر بعد از مرگ ہیڈ گوار، گول والکر، ڈاکٹر مونجے ساورکر اور شیاماپرشاد مکرجی کو ہی نہیں بلکہ گوڈ سے کو بھی بھارت رتن دیا جاسکتا ہے ہاں بال ٹھاکرے، اشوک سنگھل، پروین توگاڑیہ کو بھی بھارت رتن دیا جاسکتا ہے کیونکہ ’’اب کی بار دو مودی سرکار‘‘ آئی ہے وہ اللہ نے چاہا تو پھر کبھی تو آنے والی نہیں ہے اگر بی جے پی فراخ دل ہے تو کانگریس کے بھی پرشوتم داس ٹندڈن، سردار پٹیل، پنڈت گووند ولبھ پنت اور کئی کانگریسی قائدین کو بھی مودی سرکار کے معیار سے بھارت رتن دیا جاسکتا ہے۔
بھارت رتن پر خیال آتا ہے کہ بھارت رتن کے لئے گزشتہ سال ہی سے مختلف مسلم و غیر مسلم حلقوں سے مرحوم بہادر شاہ ظفر اور مرزا غالب کو بھی بھارت رتن دئیے جانے کی بات زور شور سے کہی جاتی رہی ہے لیکن نہ موہن سنگھ حکومت نے اور نہ ہی مودی سرکار نے اس اہم اور جاندار مطالبے کو قابل غور سمجھا۔
اس سال مودی سرکار نے واجپائی اور مدن موہن مایویہ کو بھارت رتن دے دیا جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے مدن موہن مایویہ کو ایوارڈ مایویہ کو ہندومہاسبھا کے تعلق کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ صحافت اور ان کا بنارس ہندو۔ یونیورسٹی سے تعلق ایوارڈ کا کوئی مواز ہے تو ہندوستان مایویہ سے بہت ایسے افراد موجود گزرے ہیں جنہوں نے تعلیم کے فروغ میں سنہرے کارنامے انجام دئیے ہیں۔ جنگ آزادی میں مدن موہن مایویہ جیسے بے شمار کارنامے انجام دئیے ہیں۔ جنگ آزادی میں مدن موہن مایویہ جیسے بے شمار افراد تو ملک کے ہر حصہ میں موجود تھے۔ مایویہ سے بلند مرتبہ قائدین کی جدوجہد آزادی میں کمی نہیں ہے بلکہ مایویہ سے زیادہ بڑے اور محترم قائدبھی کئی ہیں۔
اگر مسلمانوں میں ہی دیکھا جائے تو جو متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ رہے تھے مجاہدین آزادی میں مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں شامل ہیں۔ ماہرین تعلیم اور فروغ تعلیم کے سلسلے میں کام کرنے والوں میں نظام ہفتم عثمان علی خاں اور سرسید احمد خاں کا ثانی ملنا مسلمان ہی نہیں تمام فرقوں میں ناممکن ہے۔ انگریزی صحافت میں مولانا محمد علی جوہر نے جیسے صحافی کا ہندوستان میں آزادی سے قبل اور بعد میں بھی مدمقابل ناممکن ہے بلکہ انگریزی صحافت میں بھی ملک سے باہر بھی ان کو جو شہرت ملی اس کا تصور ناممکن ہے لیکن ان میں کوئی خرابی یا منفی بات ہے تو ان کا مسلمان ہونا ہی ہے (اس موقعہ پر عمداً بعض ہم نے مسلم قائدین کا ذکر نہیں کیا ہے )۔
مودی کی حکومت یہ کوشش ہے کہ ملک کے سیکولر قائدین کی شبیہ مسخ کی جائے اور اگر مسخ نہ کی جاسکے تو ان کی تاریخی، سیاسی علمی و ادبی حیثیت کم کی جائے اور ہندتو کے نظریات سے اتفاق رکھنے والے قائدین کا پروپیگنڈہ کیا جائے ان کے قد کو مصنوعی من گھڑت جھوٹی سچی داستانوں سے آڑاستہ کیا جائے چنانچہ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد کا تو ذکر ہی بھلادینے کا منصوبہ ہے تو مہاتما گاندھی، جوہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کو حسب توثیق بے بنیاد اور بے جواز تنقیدوں و اعتراضات کا نشانہ بناکر ان کے کارناموں کو نظر انداز کرکے ان سے متعلق ایام، اداروں اور ٹرسٹس وغیرہ تک کو نظر انداز کیا جارہا ہے یا ان کے نام بدلے جائیں تو گویا اب یہ طئے ہے سیکولر قائدین کو حاشیے پر لگاکر سردار پٹیل، مایویہ، شیاماپرشادمکرجی وغیرہ کو ہر طرح اہمیت دی جائے۔ مودی اپنی تقاریر میں گاندھی، نہرو اور دیگر قائدین کی طرح قومی نعرہ جئے ہند کی جگہ خالص ہندتو نعرہ بھارت ماتا کی جئے کہتے ہیں۔
سی بی آئی کو اپنا تابعدار بناکر اس کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کا اعتراض عدالت عظمیٰ نے حکومتوں پر کیا تھا۔ بی جے پی اپنے دور میں اس کا استعمال زیادہ ہی کرتی ہے۔ بابری مسجد انہدام مقدمہ میں اڈوانی کو راحت ملی تھی۔ اب سی بی آئی نے صدر بی جے پی امت شاہ کو سہراب الدین مقدمہ میں تین افراد کے قتل سے راحت دلانے کے لئے عدالت میں امت شاہ کی مخالفت کمزور اور غیر موثر کرکے امت شاہ کو سی بی آئی نے بچالیا ہے۔
مودی پر آمرانہ اور فسطائی طریقوں کو اپنانے کا الزام غلط ہے کیونکہ مودی کو آمرانہ اور فسطائی طریقے ہی نہیں ہر معاملے میں فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرنے کا حکم آر ایس ایس نے ہی دے رکھا ہے۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

Honoring the killers in Modi reign. Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں