فلم - پی کے - کو سماجی مسائل کے پس منظر میں دیکھا جائے - دہلی ہائی کورٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-19

فلم - پی کے - کو سماجی مسائل کے پس منظر میں دیکھا جائے - دہلی ہائی کورٹ

نئی دہلی
پی ٹی آئی
دہلی ہائی کورٹ نے آج احساس ظاہر کیا کہ مذہبی عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں ۔ عامر خان کی فلم’’پی کے‘‘ کے خلاف مفاد عامہ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس جی روہنی اور جسٹس آر ایس انڈلا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ موجودہ درخواست ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے رجحان کی ایک مثال ہے اور اس رجحان کو ابتداء میں ہی ختم کردینا چاہئے اور اگر اسے ختم نہ کیاجائے تو اندیشہ ہے کہ یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گی جسے برداشت کرنے کا ملک متحمل نہیں ہے ۔ بنچ نے مزید احساس ظاہر کیاکہ دستور نے ایک فنکار کے حق کا تحفظ کیا ہے تاکہ وہ سماجی حقائق کو تمام ممکنہ اشکال میں پیش کرسکے ۔ کسی فلم کا مشاہدہ کرنا ایک ناظر کی اپنی پسند پر منحصر ہے ۔ اگر کسی مخصوص فلم کے نظریہ یا اس میں شامل مواد سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو وہ اس کے مشاہدہ سے گریز کرسکتا ہے ۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ فلم جس نے600کروڑ روپے کے عالمی کاروبار کے بارے باکس آفس پر ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔ سماج میں پائی جانے والی برائی کی نظیر کے طور پر دیکھی جانی چاہئے ۔نہ کہ مذہب کے عقائد اور بنیادی نظریہ کی توہین کے طور پر دیکھی جائے ۔ بنچ نے مفاد عامہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہندو مذہب کے بنیادی عیقدہ یا روایات کی توہین کی حیثیت سے اس فلم یا اس کے کچھ حصہ پر امتناع عائد کرنے سے قاصر ہیں ۔ جن حصوں پر اعتراض کیاجارہا ہے انہیں لازماً سماج میں پائی جانے والی برائی کے طور پر دیکھاجانا چاہئے ۔ مفاد عامہ کی درخواست میں عدالت سے خواہش کی گئی کہ پی کے سے قابل اعتراض مناظر حذف کرنے کی ہدایت دی جائے ۔ اور کہا کہ فلم کے مواد سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ عدالت نے اس پر کہا کہ درخواست گزار یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کے مذہب کے ماننے والوں کا خواہ وہ ہندو ہوں یا اور کوئی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں عقیدہ و یقین اتنا کمزور ہے کہ فلم کے ان حصوں سے جنہیں حذف کرنے کے لئے کہا جارہا ہے ،متزلزل ہوگیا ۔ ہمارے خیال میں تصور بالکل ایک غلطی ہے ۔ فلم کے جن حصوں پر اعتراض کیاجارہا ہے وہ بعض ہندو روایات و رسومات پر مزاح کی حد میں طنز کی نوعیت سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ مناظر کو سماجی بہبود کے طور پر دیکھاجاسکتا ہے جس سے مذہب کو بہتر طور پر دیکھنے میں مدد ملے ۔ بنچ نے مزید کہا کہ ہمارے جیسے کثیر مذہبی ملک میں شہری اور ہم وطن تقریباً تمام مذاہب کے ماننے والے ہیں ۔ مذہبی معاملات میں عوام انتہا درجہ برداشت رکھتے ہیں ۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کسی فلم کا مشاہدہ کرنا ایک ناظر کے اخٹیار کی بات ہوتی ہے ۔ چاہے تو وہ اس کا مشاہدہ کرے یا نظر انداز کرے ۔ مفاد عامہ کی یہ درخواست مقامی پجاری اجئے گوتم کی جانب سے داخل کی گئی ۔

Aamir Khan’s ‘PK’ row: Delhi High Court hits out against religious intolerance in India

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں