آگرہ میں تبدیلئ مذہب کا مشتبہ واقعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-10

آگرہ میں تبدیلئ مذہب کا مشتبہ واقعہ

آگرہ
ایس این بی
دھوکے اور لالچ کے ذریعہ کچھ لوگوں کو بہکا کر ہندو بنالینے کی سازش کی پول کھل گئی ہے۔ چند شر پسندوں نے کچھ پڑوسی لوگوں کو ہون میں شرکت کے لئے بلایا اور ان کے ماتھے پر تلک لگا کر فوٹوکھنچ کر میڈیا والوں کو دے دئیے۔ اس خبر سے شہر بھرمیں اشتعال پھیل گیا ہے، جب کہ نام نہاد کے طور پر دھرم پریورتن کرنے والوں نے اس طرح کے کسی واقعہ سے صاف طور پر انکار کیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق ہندو وادی تنظیم کے شعبہ مذہبیات کے ذمہ داران نے آگرہ کی پسماندہ بستی دیونگر میں ایک مندر بنانے کی تجویز پیش کی ۔ اس علاقے میں باہر سے آکر کچھ انتہائی پسماندہ مسلم خاندان رہتے ہیں ۔ ان کے60کنبے ایک بڑے سے مکان یا باڑے میں آباد ہین ۔ ان کے کل افرادکی تعداد تقریباً ڈھائی سو ہے ۔ ان میں خاصی تعدا د نابالغ بچوں کی ہے ۔ ان میں سے تقریباً90فیصد کا تعلق بنگال یا بہار سے ہے ۔ یہ سب زندگی گزارنے کے لئے کوڑا کچرا بیننے اور کباڑ جمع کرکے اسے فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ جس سے ان کی بمشکل60سے80 روپے یومیہ آمدنی ہوجاتی ہے ۔ یہ سب لوگ100فیصد ناخواندہ ہیں ۔ باہر کا ہونے اور زیادہ غریب اور ناخواندگی کے سبب ان لوگوں کے پاس نہ ووٹر کارڈ ہے نہ راشن کارڈ اور نہ ہی کوئی دوسرا شناختی کارڈ۔
ہندو تنظیموں نے ان لوگوں کو ورغلایا کہ ہم یہاں مندر بنانا چاہتے ہیں اور اگر آپ لوگ پڑوسی ہونے کے ناطے ہون میں بیٹھو گے تو ہم تمہاری مدد بھی کریں گے ۔ ان کے لئے بی پی ایل کارڈ، آدھار کارڈ اور راشن کارڈ وغیرہ تمام شناختی کارڈ بنوادیں گے۔ اسی کے ساتھ تمہارے بچوں کو پڑھانے اور سرکار سے مدد دلانے کی بھی کوشش کی جائے گی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ آپ لوگ ہون میں اپنی روایتی ٹوپی پہن کر آئیں اور بس جیسا ہم کریں، ویسے ہی کرتے جائیں ۔ لہذا اس پروگرام میں تقریباً40سے50مسلمانوں نے شرکت کی ، جن کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر200سے250تک بتایا جارہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی دھرم پریورتن نہیں کیا ۔ جس شخص کا نام سب سے زیادہ لیاجارہا ہے ۔ اسی محمد اسماعیل نے بتایا کہ وہ تو محض مذہبی رواداری کے تحت مندر تعمیر کے پروگرام میں شریک ہواتھا۔ وہ الحمدللہ مسلمان تھا، مسلمان ہے اور مسلمان ہی رہے گا۔ محمد ظلال ، سلیم، انور، جہانگیراور اشرف وغیرہ نے بھی بتایا کہ مذہب بدلنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ انہوں نے نمائندہ راشٹریہ سہارا سے ملاقات میں بتایا کہ انہیں ہندو بننے پر شناختی کارڈ ، بچوں کی تعلیم اور اقتصادی امداد کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، لیکن ہم اس بنیاد پر مذہب تبدیل نہیں کررہے ہیں ۔ شہر کے عمائدین نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔

نئی دہلی/لکھنو سے ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب یوپی کے آگرہ میں387لوگوں کو لالچ دے کر ہندو بنائے جانے کامعاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا ۔ کانگریس کے راجیو شکلا نے کہا کہ2017ء کے یوپی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر یہ ریاست کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔ وہیں بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کا کہنا ہے کہ اسکے پیچھے فرقہ وارانہ طاقتیں ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے ۔
دوسری جانب سماج وادی پارٹی کے ریاستی ترجمان راجندر چودھری نے مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرانے کو حساس معاملہ قرار دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس معاملہ سے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا آگاہ کریں گے۔ ایس پی کے ریاستی صدر رام اچل راج بھر نے بھی لالچ دے کر غریب مسلمانوں کو ہون پر بیٹھانے کے واقعہ کی مذمت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جبراً یا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرایا گیا ہے تو یہ قانوناً جرم ہے ، بی ایس پی اس کی مخالفت کرتی ہے ۔ معاملہ کی جانچ کے بعد اس معاملہ میں کارروائی ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ماحول بگاڑ کر برادری اور مذہب میں کشیدگی پیدا کرنا اور سیاسی فائدہ اٹھانا آر ایس ایس، بی جے پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی فطرت رہی ہے ۔ امن و قانون برقرا ررکھنا مرکزی و ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

RSS says it converted 200 Muslims into Hindus in Agra

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں