پی ٹی آئی
دہلی ہائی کورٹ نے مظفر نگر کے فسادات پر ایک دستاویزی فلم کا جائزہ لینے کی غرض سے یہ فلم سنسر بور ڈکو واپس بھیج دی ہے تاکہ بورڈ اس امر پر غور کرے کہ اس فلم کے کسی قابل اعتراض منظر کو حذف کرکے آیا عام نمائش کے لئے اس فلم کو سرٹیفکیٹ دیا جاسکتا ہے ۔ جسٹس ویبھو بکھرو نے سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن (سی بی ایف سی) کو ہدایت دی ہے کہ اگر اس دستاویزی فلم( ان دنوں مظفر نگر) میں کوئی قابل اعتراض مناظر ہوں تو اس بارے میں’’واضح‘‘ احکام جاری کئے جائیں ۔ عدالت نے کہا کہ’’اگر یہ ساری دستاویزی فلم‘‘ فلم سرٹیفکیشن کے رہنمایانہ اصولوں کے خلاف پائی جائے تو یہ وجوہات بتائی جائیں کہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کیسے کی گئی ہے۔‘‘عدالت کے حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بورڈ کے وہ ارکان اس دستاویزی فلم کا جائزہ لیں جنہوں نے قبل ازیں اس فلم کا جائزہ نہیں لیا تھا۔ اس سارے عمل کو اندرون چار ہفتے مکمل کرلینا ہوگا ۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ’’فلم سنسر بورڈ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ساری دستاویزی فلم قابل اعتراض ہے ۔‘‘ اس دستاویزی فلم کے پروڈیوسر آنجہانی سبھدرادیپ چکرورتی کی اہلیہ میرا چودھری کی درخواست کی یکسوئی کرتے ہوئے عدالت نے احکام جاری کئے ۔ درخواست میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن نے اس دستاویزی فلم کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے کوئی تفصیلی وجوہات نہیں بتائی تھیں ۔ عدالت نے اپنے احکام میں کہا ہے کہ اگر مذکورہ بورڈ ، ضروری سمجھے تو فلم کی اسکریننگ( جائزہ) کے وقت میرا چودھری کو بلا سکتا ہے ۔
Delhi High Court sends documentary film 'En Dino Muzaffarnagar' on Muzaffarnagar riots to CBFC for review
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں