سرکاری پالیسیوں کا جائزہ عدلیہ کی ذمہ داری نہیں - سپریم کورٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-08

سرکاری پالیسیوں کا جائزہ عدلیہ کی ذمہ داری نہیں - سپریم کورٹ

نئی دہلی
آئی اے این ایس
سپریم کورٹ نے آج جمعہ کے روز کہا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیتی پھرے کہ آیا کوئی سرکاری پالیسی صحیح ہے یا غلط اور آیا کسی پالیسی کا اور کوئی صحیح ورژن ہوسکتا تھا۔ جسٹس دیپک مشرا، جسٹس روہنٹن اور جسٹس اودے اومیش پرمشتمل ایک بنچ نے آج کہا کہ ’’یہ بات اظہر من الشمس ہوجانی چاہئے کہ یہ بات عدالتوں کے دائرہ عمل میں نہیں آتی کہ وہ کسی مخصوص پالیسی کی جانچ کریں کہ آیا وہ صحیح ہے یا غلط۔ عدالت اسی صورت میں مداخلت کرسکتی ہے جب اختیار کردہ پالیسی بالکل ہی نامناسب ہو یا اس کے پیچھے کوئی خاس توجیہہ نہ ہو یا وہ دستور کی دفعہ14سے راست ٹکراتی ہو ۔ کچھ معاملات میں مختلف آراء ہوسکتی ہیں لیکن یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی ایک رائے کو سب سے بہتر قرار دے ۔‘‘ عدالت نے رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر آف انڈیا کے اس کیس میں یہ بیان دیا جس میں مدراس ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا ۔ مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے تحت ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے احکامات دیے گئے تھے۔ اس حکم میں کہا گیا تھا کہ’’ہم حکومت ہند کے مردم شماری محکمہ کو اس بات کی ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ملک میں فوری ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کرے۔ اس سے سماجی انصاف کے مقصد کی صحیح معنوں میں تکمیل ہوگی ۔‘‘ ہائی کورٹ کا ادعا تھا کہ 1931میں ہونے والی ذات پات پر مبنی آخری مردم شماری کے بعد ایس سی اور ایس ٹی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ۔
چنانچہ اس بنیاد پر انہیں دیے گئے تحفظات میں بھی اضافہ ہونا چاہئے ۔ اس فیصلہ پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کے ذریعہ سماجی انصاف کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی ۔تاہم سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کوٹ کے24اکتوبر2008اور12مئی2010کے فیصلوں پر روک لگا دی ۔ مردم شماری پر حکومت کے نوٹیفکیشن پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ مردم شماری میں بہت ساری چیزوں کا احاطہ ہوتا ہے جس میں ایس سی اور ایس ٹی سے متعلقہ معلومات بھی شامل ہیں۔اس میں کسی ذات کا ذکر نہیں ہے ۔ اس صورت میں یہ سوچنا بھی دشوار ہے کہ اپنے اس طرح کے پہلے ہی کیس میں مدراس ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ کس طرح دیا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ عدالتوں کو دیے گئے اختیارات سے تجاوز ہے ۔ ادھر این ڈی اے میں شامل پارٹی پی ایم کے نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت کے اس بیان سے بھی اختلاف کیا کہ اس طرح کی مردم شماری وقت کی ضرورت نہیں ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں