لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اہلِ وطن کی جانب سے انہیں مدارس اور انہیں مسلمانوں کو ملک دشمن یا ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بے جا الزام لگایا جاتا ہے ، ایک طرف تو صورتِ حال یہ ہے کہ خود بی جے پی سے منسلک لیڈران اور ممبر انِ پارلمینٹ مسلمانوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں ، مدارس میں لو جہاد کی تعلیم دینے کی بات کہی جاتی ہے ، یا انہیں دہشت گردی کے اڈے قرار دیا جاتا ہے اور دوسرے طرف صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ سے جب ’’لوجہاد‘‘ کے تعلق سے دریافت کیا جاتا ہے تو اس سے لاعلمی ظاہر کرتے ہیں ، پورے ملک میں ’’لوجہاد‘‘ کی اصطلاح گھڑ کر مسلمانوں کو ہراساں کیاجارہا ہے اور دوسری طرف وزیر داخلہ اس اصطلاح سے ہی نابلد ہیں ، ملک کے وزیر اعظم ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق یہ کہتے ہیں کہ :ملک کامسلمان ملک کے لئے جیتا ہے اور ملک کے لئے مرتاہے او رددوسری طرف اسی پارٹی کے زعفرانی ذہنیت کے حامل لیڈران مسلمانوں کے تعلق سے زہر افشانی کرتے ہیں ، ان کو ملک دشمن قرار دیتے ہیں ، جب وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کا مسلمان ملک کا محافظ ، ملک کا وفادار ہے ، مداس اسلامیہ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں تو پھر ان غلط بیان بازی کرنے والوں پر روک کیوں نہیں لگائی جاتی ؟ ان کی زبان کَسی کیوں نہیں جاتی؟ ان کی ان غلط بیان بازیوں کا نوٹس نہیں لیاجاتا؟ یا انہیں آئندہ اس طرح کی غلط بیان بازیوں میں ملوث ہونے سے متنبہ کیوں نہیں کیاجاتا؟ ۔
اس سے قبل بھی جب ہندوستان میں القاعدہ کی شاخ کی قیام کی بات کہی گئی تھی تو ملک کے تمام سربرآوردہ علماء اور قائدین نے اس کا سختی سے رد کیا تھاجن میں دہلی کے شاہی امام، کیرلا کے مولانا ابوبکر اور دیگر لوگ شامل تھے جنہوں نے یوں کہاتھا :ملک کا مسلمان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہمیں اس ملک میں کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کے ساتھ رہاجاسکتا ہے ، کسی بھی باہر کی القاعدہ یا دیگر تنظیموں کو ہمیں سبق دینے کی ضرورت نہیں ؟ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے ،جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل آواری کے تعلق سے آزادی حاصل ہے ،یہاں تمام مذاہب اور ذات پات کے لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں ، ہندوستان کے اپنے قوانین ہیں جن کی روشنی میں یہاں کے مسلمانوں کو اپنے مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے اور اس کے فروغ کے لئے کوشش کرنے کے تمام مواقع حاصل ہیں ، پھر کیوں کر ہندوستان کا مسلمان دہشت گردانہ کاروایوں میں ملوث ہوگا؟جب جان ، مال ، عزت وآبرو ہر قسم کے تحفظ ہمیں حاصل ہے، اگر کوئی جان ومال یا عزت وآبرو پر حملہ کرتا ہے تو اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے کیوں دہشت گردانہ کاروایوں میں ملوث ہو کر جس میں بے جا جان واملاک اور بے قصوراور نہتے لوگوں کا خون خرابہ ہوتا ہے ملوث ہوجائے اور خود اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا ہے تو کیوں کر اس طرح کی غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث ہویاجاسکتا ہے۔
اگر اس وقت حکومتِ وقت سنجیدہ ہے تو ان غلط بیان بازیوں پر روک لگانے کی ضرورت ہے جو ملک کے مختلف گوشوں میں آر یس یس ، بجرنگ دل یا ویشو ہند پریشد کے کارکنان پر جو اپنے منافرانہ بیان بازیوں کے ذریعہ ملک کی فضا کو زہر آلود کرنا چاہتے ہیں ، ملک کا چین وسکون غارت کرنا چاہتے ہیں ، آئے دن یوپی ، دہلی ، گجرات مہاراشٹر ، ہریانہ وغیرہ کے فساد زدہ علاقے اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں ، حکومت ملک کے تئیں مخلص ہے تو ان واقعات کی صحیح تحقیق وچھان بین کے ذریعہ ان فسادات کے اصل رول ادا کرنے والوں کو کیفر دار تک پہنچانا چاہئے ، اگر فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کا یہی حال رہتا ہے ، ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ایسی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ ہر جگہ فرقہ واریت اور منافرت کو ہوادیں تو پھر ملک کا مسلمان احساسِ عدمِ تحفظ میں مبتلا ہوجائے گا، اس لئے حکومت وقت کی ذمہ داری ہے فسادات زدہ علاقوں میں فساد میں ملوث لوگوں کو صحیح شواہد کی روشنی میں مخلصانہ اور سنجیدہ ذہنیت کے ان کا سخت نوٹس لے تو یہ چیز ملک کے حق میں اور ملک کی عوام کے حق میں بہتر ہوگی۔
بہر حال مسلمانوں کے تعلق سے یا مدارس اسلامیہ کے تعلق سے جو غلط پروپیگنڈے پھیلائے جاتے ہیں ، اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے ، ہمیں ملک کی وفاداری کا سرٹیفکٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے ، اس ملک کے ساتھ ہماری وفاداری کی گواہی ملک کے در ودیوار دیں گے ، آج بھی ، دہلی کا لال قلعہ ، آگرہ کا تاج محل، حیدرآباد کا چار مینار ، جگہ جگہ پھیلی عظیم تاریخی عمارتیں جس پر آج ساری دنیا کو فخر ہے ، ہمیں بھی فخر ہے ، یہ اس ملک کے باسی مسلمانوں کی دین ہیں ،جس ملک کی تعمیر میں ہم نے ہزاروں سال جتن کئے ، اس ملک کی بربادی کی نسبت مسلمانوں کی جانب کرنا یہ احسان فراموشی کی آخری حد ہوگی۔
سو بار سنوار ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہلِ جنون کیا بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو
- دینی مدارس - حفاظت اسلام کی ایک زندہ تحریک
- دینی مدارس میں عصری تعلیم کا انقلابی اقدام
- دینی مدارس کا ماضی و حال - مرکزی مدرسہ بورڈ کے نقصانات
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
![]() |
رفیع الدین حنیف قاسمی |
The importance of Madrasas in protection of country. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں