شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ آئندہ برس ہندوستان پہنچ جائے گا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-29

شمسی توانائی سے چلنے والا طیارہ آئندہ برس ہندوستان پہنچ جائے گا

پائرنے(سوئٹزر لینڈ)
یو این آئی
شمسی توانائی سے چلنے والا پہلا طیارہ آئندہ برس ماہ مارچ میں ہندوستان پہنچ جائے گا ۔ سوئزر لینڈ کے صدر ڈڈیربخالٹر نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اس طیارہ کو گجرات کے احمد آباد میں اتارنے کی درخواست کی ہے ۔ سوئزر لینڈ کے شہر پائرنے میں واقع فضائیہ کے اڈے کے حکام نے یو این آئی کو بتایا کہ شمسی توانائی کے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والا یہ طیارہ یکم مارچ کو احمد آبا د اور 6مارچ کو وارانسی پہنچے گا۔ اس طیارہ کو فی الحال فضائیہ کے اسی اڈے پر رکھا گیا ہے ۔ حکام نے کہا کہ شمسی توانائی سے چلنے والے طیارے کو ان دونوں جگہوں پر اتارنے کے پیچھے کوئی سیاسی وجہ نہیں ہے بلکہ دونوں شہروں کے ایر پورٹس دیکھنے کا بہتر انتظام ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ احمد آباد، مودی کی آبائی ریاست میں واقع ہے جب کہ وارانسی ان کا پارلیمانی حلقہ ہے۔ سوئزر لینڈ کے صدر نے مودی کو خط لکھ کر طیارہ کا استقبال کرنے کی درخواست کی ہے ۔ حالانکہ صدر کے دفتر نے اس کی توثیق نہیں کی ۔
اس طیارہ میں2پائلٹ ہوں گے ۔ یہ طیارہ سوئزر لینڈ سے پرواز کرکے ابو ظہبی پہنچے گا اور وہاں سے احمد آباد کے لئے پرواز کرے گا ۔ یہ طیارہ ایک وقت میں120گھنٹے کی پرواز کرکے اور پہلی بار بحر کو پار کر کے احمد پہنچے گا ۔اس طیارہ کو بنانے والے آندرے براسچ برگ اور بدرانڈپکارڈ نے یو این آئی کو بتایا کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شمسی توانائی سے چلنے والے طیارہ سے دنیا کا دورہ کیاجاسکتا ہے ۔ طیارہ کے دونوں پائلٹس نے بتایا کہ انہوں نے اس پرواز کے دوران خود کو چست و تندرست رکھنے کے لئے ایک ہندوستانی گرو سے یوگا کی تربیت لی ہے ۔5.070پاؤنڈ کی لاگت سے تیار کردہ اس طیارہ کو بنانے میں13برسوں کا وقت لگا ہے ۔ اس طیارہ کی خصوصیت بتاتے ہوئے برسچ برگ نے کہا کہ یہ بہت بڑا اور بہت ہلکا طیارہ ہے۔ اس طیارہ کو بنانے میں گجرات کی ایک کمپنی نے بھی کچھ پرزے مہیا کئے ہیں ۔ ایک طیارہ کے پائلٹ نے بتایا کہ پرانی ٹکنیک کا استعمال کرنے سے پرانے انجن ، پرانے بلب ، خراب سنولیٹر جیسی چیزیں کافی توانائی ضائع کرتی ہیں لیکن شمسی توانائی سے چلنے والے آلات ثابت کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں