اندرا گاندھی کے قتل کے تیس سال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-31

اندرا گاندھی کے قتل کے تیس سال

سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے30سال بعد بھی ایک 90سالہ ڈاکٹر کویہ واقعہ اس طرح یاد ہے جیسے یہ گزشتہ روز ہی پیش آیا ہو ۔ ڈاکٹر کے پی ماتھر نے جو18برس تک وزیر اعظم اندرا گاندھی کے معالج رہے تھے، کہا کہ روز صبح معمول کے معائنہ کے بعد ان سے بات چیت کیا کرتا تھا اور جس روز یہ واقعہ پیش آیا حسب معمول بات چیت کے بعد روانہ ہوا تھا ، لیکن20منٹ کے اندر ان کے دفتر سے ہنگامی فون کال موصول ہونے پر مجھے واپس ہونا پڑا تھا ۔ انہیں گولی ماردی گئی تھی ۔ مشرقی دہلی میں اپنے معمولی دفتر میں31اکتوبر1984ء کی صبح پیش آئے اس واقعہ کی روداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا کہ اس صبح میں حسب معمول ان(اندراگاندھی) کی قیامگاہ 1صفدر جنگ روڈ گیا تھا۔ اندرا گاندھی حسب معمول ہشاش بشاش تھیں اور دوردرشن کے میک اپ آرٹسٹس ان کے پیٹر استینوف کے ساتھ انٹر ویو کے لئے متصل دفتری عمارت1اکبر روڈ میں ان کے منتظر تھے ۔ میں اور اندرا گاندھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے کہ صدر ریگن کس طرح ٹی وی پر پیش ہونے کی تیاریاں کرتے ہیں اور بھوبنیشور سے واپسی کے دوران طیارہ میں میں نے کس کتاب کا مطالعہ کیا تھا جہاں وزیر اعظم ایک سیاسی جلسہ سے خطاب کے لئے گئی تھیں ۔ میں نے انہیں یہ بتایا تھا کہ میری چھوٹی لڑکی ہائی اسکول کے امتحان میں اول درجہ سے کامیاب ہوئی ہے۔ اس کے بعدوہ متصل کمرہ میں چلی گئی تھیں ، جہاں انہوں نے اپنے مددگار نتھو رام کو اپنے شام کے پروگرام کے بارے میں بتایا تھا جس میں صدر جمہوریہ ذیل سنگھ کے استقبال کے لئے ایر پورٹ روانگی بھی شامل تھی جو بیرنی دورہ سے واپس ہورہے تھے ۔ بعد ازاں انہوں نے ہم کو اپنے ساتھ چائے میں شامل ہونے کی دعوت دی اور پھر انٹر ویو کے لئے روانہ ہوگئیں۔
واضح رہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے واقعہ نے ہندوستان کو دہلا دیا تھا اور3دن تک صدمہ کی لہر جاری رہی تھی۔ اس واقعہ کے بعد خونریزی اور فرقہ وارانہ نفرت کا ایک ایسا سلسلہ بھی شروع ہوا تھا جو1947ء میں بر صغیر کی تقسیم کے بعد شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ڈاکٹر ماتھر نے اپنی یادداشت کو مجتمع کرتے ہوئے اس بد نصیب دن کے بارے میں بتایا کہ وہ خود اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اندرا گاندھی کی قیامگاہ سے روانہ ہوئے تھے اور رام منوہر لوہیا ہاسپٹل کی طرف رواں دواں تھے جو وہاں سے صرف10منٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ وہ اس ہاسپٹل کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ بمشکل اپنی گاڑی پارک کرپائے تھے کہ اچانک ان کا سکریٹری دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ پرائم منسٹرس ہاؤز سے ایک ہنگامی فون کال موصول ہوئی ہے ۔( یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے۔) سکریٹری نے بتایا کہ پرائم منسٹر ہاؤز میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے اور شاید وزیر اعظم کو گولی لگی ہے ۔ ماتھر نے کہا کہ میں فوری اپنی کار میں سوار ہوا اور واپس چل پڑا ۔ وزیر اعظم کی قیامگاہ پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ جہاں کچھ دیر پہلے امن و امان تھا، اب ہرطرف افراتفری پھیلی ہوگئی تھی ۔ محافظین پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دوڑ رہے تھے ۔ میں نے ایک گارڈ کو کہتے ہوئے سنا ’’انہیں گالی مار دی گئی ہے ۔‘‘ ماتھر جب اندر پہنچے تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہاں کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ اندرا گاندھی کے2سکھ باڈی گارڈس نے جو اس گیٹ پر تعینات تھے جو ان کی قیامگاہ1صفدر جنگ روڈ کو ان کے دفتر1اکبر روڈ سے علیحدہ کرتی تھی ۔ ان کے وہاں پہنچتے ہی اپنی خود کار بندوقوں سے ان پر گولیوں کی بوچھا ر کردی تھی اور وہ وہاں خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں۔ بندوق کی تڑ تڑاہٹ نے پر امن فضا کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کی بہو سونیا گاندھی نائٹ گون پہنے وہاں دوڑتی ہوئی آئی تھیں اور وہ’’ممی ممی‘‘چلا رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد بے جان اندرا گاندھی کو ان کی سفید ایمبسیڈر کار میں ڈالا گیا جن کا سر سونیا گاندھی کی بانہوں میں تھا ۔ انہیں فوری آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(ایمس) لے جایا گیا، جو وہاں سے تقریباً5کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔(واضھ رہے کہ اس وقت وزیر اعظم کے لئے کوئی خصوصی حفاظتی دستہ نہیں تھا۔)ماتھر نے مزید بتایا ککہ جب میں ایمس پہنچا تو انہیں اسٹریچر پر دیکھا۔ ان کا جسم خون میں لت پت تھا ۔ میں نے ان کی نبض دیکھی اور مجھے پتہ چل گیا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھیں ۔ ڈاکٹرس اپنی کوشش کررہے تھے اور طبی عملہ خون کی بوتلیں لانے بھاگ دوڑ کررہا تھا لیکن سب جان گئے تھے کہ اب سب کچھ ختم ہوچکا ہے لیکن کوئی اس پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔

30th death anniversary of India's ex-PM Indira Gandhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں