واضح رہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کے واقعہ نے ہندوستان کو دہلا دیا تھا اور3دن تک صدمہ کی لہر جاری رہی تھی۔ اس واقعہ کے بعد خونریزی اور فرقہ وارانہ نفرت کا ایک ایسا سلسلہ بھی شروع ہوا تھا جو1947ء میں بر صغیر کی تقسیم کے بعد شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ ڈاکٹر ماتھر نے اپنی یادداشت کو مجتمع کرتے ہوئے اس بد نصیب دن کے بارے میں بتایا کہ وہ خود اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اندرا گاندھی کی قیامگاہ سے روانہ ہوئے تھے اور رام منوہر لوہیا ہاسپٹل کی طرف رواں دواں تھے جو وہاں سے صرف10منٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ وہ اس ہاسپٹل کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ بمشکل اپنی گاڑی پارک کرپائے تھے کہ اچانک ان کا سکریٹری دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ پرائم منسٹرس ہاؤز سے ایک ہنگامی فون کال موصول ہوئی ہے ۔( یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے۔) سکریٹری نے بتایا کہ پرائم منسٹر ہاؤز میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے اور شاید وزیر اعظم کو گولی لگی ہے ۔ ماتھر نے کہا کہ میں فوری اپنی کار میں سوار ہوا اور واپس چل پڑا ۔ وزیر اعظم کی قیامگاہ پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ جہاں کچھ دیر پہلے امن و امان تھا، اب ہرطرف افراتفری پھیلی ہوگئی تھی ۔ محافظین پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دوڑ رہے تھے ۔ میں نے ایک گارڈ کو کہتے ہوئے سنا ’’انہیں گالی مار دی گئی ہے ۔‘‘ ماتھر جب اندر پہنچے تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہاں کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ اندرا گاندھی کے2سکھ باڈی گارڈس نے جو اس گیٹ پر تعینات تھے جو ان کی قیامگاہ1صفدر جنگ روڈ کو ان کے دفتر1اکبر روڈ سے علیحدہ کرتی تھی ۔ ان کے وہاں پہنچتے ہی اپنی خود کار بندوقوں سے ان پر گولیوں کی بوچھا ر کردی تھی اور وہ وہاں خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں۔ بندوق کی تڑ تڑاہٹ نے پر امن فضا کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کی بہو سونیا گاندھی نائٹ گون پہنے وہاں دوڑتی ہوئی آئی تھیں اور وہ’’ممی ممی‘‘چلا رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد بے جان اندرا گاندھی کو ان کی سفید ایمبسیڈر کار میں ڈالا گیا جن کا سر سونیا گاندھی کی بانہوں میں تھا ۔ انہیں فوری آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(ایمس) لے جایا گیا، جو وہاں سے تقریباً5کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔(واضھ رہے کہ اس وقت وزیر اعظم کے لئے کوئی خصوصی حفاظتی دستہ نہیں تھا۔)ماتھر نے مزید بتایا ککہ جب میں ایمس پہنچا تو انہیں اسٹریچر پر دیکھا۔ ان کا جسم خون میں لت پت تھا ۔ میں نے ان کی نبض دیکھی اور مجھے پتہ چل گیا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہی تھیں ۔ ڈاکٹرس اپنی کوشش کررہے تھے اور طبی عملہ خون کی بوتلیں لانے بھاگ دوڑ کررہا تھا لیکن سب جان گئے تھے کہ اب سب کچھ ختم ہوچکا ہے لیکن کوئی اس پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔
30th death anniversary of India's ex-PM Indira Gandhi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں