فرقہ پرستوں کے پیچھے سرکار کی طاقت باعث تشویش - انسانی حقوق تنظیموں کا مذاکرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-28

فرقہ پرستوں کے پیچھے سرکار کی طاقت باعث تشویش - انسانی حقوق تنظیموں کا مذاکرہ

نئی دہلی
سلیم صدیقی/ ایس این بی
ملک میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اقلیتوں کے خلاف فرقہ پرست قوتوں کے حملہ تیز ہوئے ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے ۔ کہیں لو جہاد تو کہیں تبدیل مذہب کے نام پر انہیں نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ ان کے مذہبی شناخت کا مذاق اڑایاجارہا ہے ۔ مرکزی حکومت کی ہمنوا ہندو تنظیمیں کھلے عام اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کررہی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یعنی خاموش رہ کر ان کی پشت پناہی کررہی ہے جس کی وجہ سے پورے ملک کی اقلیتوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے اور ملک کے سیکولر تانے بانے کو بچانے کے لئے مذہبی غیر جانبدار اور سیکولر تنظیموں کی جانب سے آج جنتر منتر پر ’’مائنا ریٹیز انڈر اٹیک ‘‘ کے عنوان سے منعقد جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے کہا کہ اس وقت سیکولراور مذہبی غیر جانبدارہندوستان کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی تنگ نظری اور مذہبی غیر جانبداری کے درمیان یہ بہت بڑی لڑائی ہے ۔ آج یہ معاملہ اس لئے اور زیادہ سنگین ہوگیا ہے کہ کیونکہ اب فرقہ پرست قوتوں کے پیچھے سرکارکی طاقت ہے اور سرکار خود ان قوتوں کے ساتھ ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کہ اس نے ابھی تک ان طاقتوں کو روکنے یا لگام دینے کی کوئی کشش نہیں کی ہے۔ اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیکولر سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں متحد ہوکر اس لڑائی کو لڑیں۔
جنتادل( ایس) کے جنرل سکریٹری کنور دانش علی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرکار جن اچھے دنوں کا وعدہ کر کے آئی تھی وہ اچھے دن آگئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہاتھرس میں ایک گرجا گھر کو مندر میں تبدیل کرنے کی منظوری لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ پارلیمنٹ یہ بل پاس کرچکی ہے جو عبادتگاہ ہے اسے قطعی دوسری عبادتگاہ سے نہیں بدلا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں بھی کئی واقعات ایسے ہوئے کہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے والوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر پارٹی سماج وادی پارٹی کے اقتدار والے اتر پردیش میں اقلیتیں انتہائی خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے سیکولر ازم اور یکجہتی کو بچانے کے لئے سب کو مل کر جدو جہد کرنی ہوگی۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام نے کہا کہ یہ سرکار جو ماحول پیدا کررہی ہے اقلیتوں یا مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر ایک شخص کے لئے خطرہ ثابت ہوگا ۔ اس ملک کے لوگوں کی اظہار رائے کی آزادی سلب ہوگی ۔ کیونکہ سرکار کچھ خاص لوگوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے لئے کام کررہی ہے ، اگر یہ زیادہ دیر چلا تو ملک میں فاشسٹ نظام مضبوط ہوجائے گا ۔ معروف سماجی کارکن نویدحامد نے کہا کہ یہ صرف اقلیتوں پر ہی نہیں بلکہ ملک کے اس تصور پر حملہ ہے جس کے لئے مجاہدین آزادی نے اپنی قربانیاں پیش کی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔ آج تک ملک کی جاسوسی کرتے جتنے بھی جاسوس پکڑے گئے ہیں ان میں شاید ایک دو نام ہی مسلمانوں کے ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی اس بات میں واقعی یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کے لئے جیتے اوراس ملک کے مرتے ہیں تو انہیں اپنی ٹیم کے ان شدت پسندلیڈروں کو لگام دینی چاہئے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلار ہے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری مولانا نیاز فاروقی نے کہا کہ آج کل اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کا جو ماحول چل رہا ہے اس سے ہم نہ ڈریں گے اور نہ ہی بھڑکیں گے ۔ جمعیۃ علماء ہند ہندوستانی ایک قوم کے نظریہ میں یقین رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مائنا رٹیز پر حملہ اصل میں ملک پر حملہ ہے ۔ اقلیتی کمیشن کے سابق رکن اے سی مائکل نے کہا کہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں پر مظالم کرنے والوں کو روکے اور ان کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ اقلیتوں کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
انہد کے سربراہ شبنم ہاشمی نے کہا کہ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں اور عیسائیوں پر مسلسل حملے ہورہے ہیں ۔ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے نئے نئے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور اس کی ہمنوا تنظیم وشو ہندو پریشد اور دیگر تنظیموں نے اقلیتوں کو نشانہ بنانا شرو ع کردیا ہے ۔ ان تنظیموں کو لگام لگانے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتیں امن اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں ۔ ان کے علاوہ ممبر پارلیمنٹ علی انور انصاری ، امر جیت کور ، ایروانند ، ہرش مندر ، ہروندرس سنگھ، جان دیال ، کرن شاہین، منیشا شیسٹھی، زکیہ سومن ، گوہر رضا وغیرہ نے بھی اظہار خیال کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد دودرجن سے زیادہ تنظیموں کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں