تسلیمہ نسرین کے ویزے میں توسیع پر کولکتہ میں ناراضگی کا ماحول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-06

تسلیمہ نسرین کے ویزے میں توسیع پر کولکتہ میں ناراضگی کا ماحول

کلکتہ
یو این آئی
متنازعہ بنگلہ دیشی مصفنہ تسلیمہ نسرین کے رہائشی ویزہ کی مدت میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے ذریعہ توسیع کیے جانے پر کلکتہ کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر ہے ۔ اس عمل کو مسلم دشمنی سے تعبیر کیاجارہا ہے ۔ ملعون مصنفہ تسلیمہ نسرین نے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ملاقات کرنے کے بعد کہا ہے کہ حکومت نے ان کے رہائشی ویزہ میں توسیع کردی ہے ۔مختلف مسلم تنظیموں نے اس فیصلہ پر تنقید کی ہے ۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والا بتاتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور ماضی میں تسلیمہ نسرین کے خلاف تحریک میں اہم رول ادا کرنے والے ادریس علی نے میڈیا سے کہا کہ تسلیمہ نسرین کے ویزا کی مدت میں توسیع کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر اس ملک کے عوام کو تقسیم کرنا چاہتی ہے ۔، ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور سابق مرکزی وزیر سلطان احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ممتا بنرجی مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کی ملعون مصنفہ کو گزشتہ تین سالوں سے بنگال میں آنے نہیں دے رہی ہیں کیونکہ بنگال قاضی نذر الاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کی سرزمین ہے جہاں ہر مذہب کا احترام کیاجاتا ہے اور ہر مذاہب کے ماننے والے بھائی بھائی بن کر رہتے ہیں ۔ یہاں تسلیمہ نرسین جیسی شخصیات کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ممتا بنرجی لوگوں کے جذبات و احساسات کے احترام میں فیصلہ کرسکتی ہیں تو وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ خیال رہے کہ مغربی بنگال میں تسلیمہ نسرین کی کتابوں پر پابندی عائد ہے اور تسلیمہ نسرین کو عالمی شہرت یافتہ کلکتہ کتاب میلہ میں شرکت کرنے اور ان کتابوں کی نمائش پر پابندی عائد ہے ۔ کلکتہ شہر کے مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت اقلیتوں کا خیال رکھنے میں ناکام ہے ۔ آل بنگال مائناریٹی یوتھ فیڈیریشن کے جنرل سکریٹری قمرالزماں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کے ہر ایک شہری کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھے اور اس کی حفاظت کرے ۔ حکومت نے ایک ایسی خاتون کے ویزہ میں توسیع کی ہے جس نے سستی شہرت کے لئے ایک خاص مذہب کا مذاق اڑایا اور توہین کی ہے۔ ہم مرکز کے اس فیصلہ کی مذمت کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں حکومت اس پر نظر ثانی کرے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں