شمالی وزیرستان میں حقانی نٹ ورک کی زیرسرپرستی دہشت گردی تربیت گاہ پر دھاوا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-13

شمالی وزیرستان میں حقانی نٹ ورک کی زیرسرپرستی دہشت گردی تربیت گاہ پر دھاوا

اسلام آباد
پی ٹی آئی
پاکستان کے شورش زدہ قبائیلی علاقہ شمالی وزیرستان میں سیکوریٹی فورسس نے حقانی نٹ ورک کے ذریعہ چلنے والے ایک اہم اڈہ کا پتہ چلایا، جہاں خود کش بمباروں کو تربیت دی جاتی تھی ۔ حقانی نٹ ورک افغان عسکریت پسندوں کا ایک گروپ ہے ، جس کے عسکریت پسند افغانستان میں ہلاکت خیز حملوں کے علاوہ جنگ زدہ ملک میں ہندوستانی مشن پر حملہ کرچکے ہیں ۔ روزنامہ ڈان نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ تربیتی اسکول شمالی وزیرستان کے سرائے درپہ خیل علاقہ کی ایک سڑک کے بالکل آخری کنارہ پر واقع تھا ۔ یہ اسکول اس قدر پوشیدہ تھا اس کا آہنی دروازہ بھی تلاش کرنا دشوار تھا کیونکہ ارد گرد کا ماحول بالکل معمول کے مطابق تھا۔ میراں شاہ میں یہ سرائے درپہ خیل کے اندر ایک چھوٹی گلی کے آخری کنارہ پر موجود عمارتوں میں سے ایک تھی ۔ گلی کے باہر موجود ایک گارڈ نے ہمیں بتایا کہ پہلے ہم سیدھا جائیں پھر بائیں جانب ایک روازہ آئے گا ۔ لیکن اس رہنمائی کے باوجود ہمی بجلی کے ایک ٹرانسفارمر اور ایک بھاری بھرکم جنریٹر کی مخالف سمت میں وہ آہنی دروازہ ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی۔ خود کش بمباروں کی اس تربیت گاہ یا مرکز کے بارے میں صرف اطراف میں رہنے ولاوں کو معلوم تھا جب کہ کسی اجنبی کے لئے یہ عمارت غیر معمولی نہیں تھی ۔ عمارت کے اندر داخل ہوں تو ایک صحن اور بڑے ستون نظر آتے ہیں ۔ یہاں قالین بچھے ہوئے تھے جب کہ ایک طرف بستروں کا ڈھیر تھا ۔ ایک زینہ ہلکے کریم اور بھورے رنگ کی بالائی منزل کو جارہا تھا ۔ ایک دیوار پر چسپاں سفید بینر پر کلمہ اور امارات اسلامیہ افغانستان تحریر تھا ۔ مقامی افراد اب بتاتے ہیں کہ یہ سرائی درپہ خیل میں حقانی نیٹ ورک کے پانچ ایسے مراکز میں سے ایک ہے جہاں ممکنہ خود کش بمبار یا استشاہدی آتے تھے ۔ ان کی اکثریت افغان اور محسود قبیلے سے تھی لیکن اور کزئی اور مہمند سے بھی لڑکے یہاں آتے رہتے تھے ۔ ان لڑوں کی تربیت اور ان کے ذہنوں اور فکری جہت کو بدلنے والے اساتذہ اور مرکز چلانے والے خال خال ہی اس عمارت کے آہنی دروازے سے باہر دیکھے جاتے ۔ سرائے درپہ خیل میں کسی کو نہیں معلو م تھا کہ یہ لوگ کون ہیں ، ماسوائے اس کے کہ یہ خود کش بمباروں کی تربیت گاہ ہے ۔ حتی کہ شہادت کے لئے مرکز میں لائے جانے والوں کو بھی دو مہینے کی لازمی رہائش کے بغیر یہاں سے قدم باہر رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ۔ داخل ہونے والے تمام استشاہدیوں کے لئے ایک حلف نامہ پر کرنا لازمی تھا ۔ حلف نامے پر استشہادی کی رنگین تصویر، نام، فرضی نام ، والدکا نام، عمر ، پتہ، تعلیم، ذاتی فون نمبر، اہل خانہ کا فون نمبر ، خاندانی پیشہ، دوستوں اور ساتھیوں کے نام، والد کی ماضی اور موجود سیاسی وابستگیوں کی تفصیلات ، اہل خانہ کی تعداد اور ان کی ماہانہ آمدنی اور عسکری سرگرمیوں کا تجربہ پوچھاجاتا تھا۔ استشاہدی ساتھیوں کو اپنی زندگی سات سخت اصولوں کے تحت گزارنا لازمی تھی۔ حلف نامے کے تحت انہیں موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں تھی اور نہی اسکا استعمال ضروری سمجھاتاتھا ۔ اسی طرح، یہاں داخل ہونے والوں کو دو مہینوں تک باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ، اگرجانا ضروری ہوتو اس کی پیشگی اجازت لازمی تھی ۔ انہیں دوسرے، فدائی بھائیوں کے علاوہ کسی سے دوستی کرنا منع تھا ۔ اسے اپنی ذاتی استعمال کی چیزیں مرکز کے نگران کو دینا لازمی ہے ۔، اور اگر اسے کوئی ضرورت ہے تو وہ نگران سے رابطہ کرے گا،۔ مقامی افراد کے مطابق ان سب چیزوں کے علاوہ مرکز میں عبادت، روحانی اور مذہبی تربیت ، کھانا پکانے کے حوالے سے سختی برتی جاتی تھی ۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ جب وہ اپنے فرزند کا اتا پتہ پوچھنے مرکز آئے تو منتظم نے انہیں واپس بھیج دیا لیکن آخر کار ادھر ادھر رابطہ کرنے پر مرکز نے ہچکچاتے ہوئے لڑکے کوجانے دیا۔ سرائی درپہ خیل سے کچھ دور مرکزی میران شاہ بازار آئیں تو ایک دو منزلہ عمارت نظر آتی ہے ۔ یہ کبھی لڑکیوں کا سرکاری اسکول ہوا کرتا تھا۔ جب شدت پسند یہاں پہلی مرتبہ آئے اور انہوں نے اسکولوں کو بموں کے ذریعہ تباہ کرنا شروع کیا تو اس اسکول کو خالی کرنا پڑا ۔ بعد میں ہر طرح کے جنگجوؤں نے اس عمارت پر قبضہ کرتے ہوئے اسے تربیت گاہ اور لڑائی یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کی لاشیں رکھنے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ کچھ عرصے بعد اسکول کی450سے500لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے میران شاہ کے فوجی کنٹونمنٹ میں واقع ایک ڈگری کالج بھیج دیا گیا ۔ حیران کن طور پر عسکریت پسندوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں