اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-01

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

maulana-azad-education-foundation
مولانا آزاد ایجوکیشن فاونڈیشن
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مرکز میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک نئی حکومت نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اقلیتی امور کی وزارت ایک ایسی جہاں دیدہ اور تجربہ کار خاتون کو تفویض کی ہے جن کا کردار بے داغ رہا ہے ، جنھوں نے قومی سیاست میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور جن سے اقلیتوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ میری مراد محترمہ نجمہ ہپت اللہ سے ہے۔ وہ امام الہند، مجاہد آزادی، ایک عبقری شخصیت اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی نواسی اور ایک تعلیم یافتہ شخصیت ہیں۔ ان کی خدمت میں ایک ایسا مقدمہ پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے جو مولانا آزاد کے نام نامی سے معنون ہے۔ یعنی مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن۔ اقلیتی طلبہ کی تعلیمی ترقی کے سلسلے میں اس ادارے کی خدمات سے کون واقف نہیں۔ وزیر صاحبہ تو بذات خود واقف ہوں گی۔اب یہ ادارہ ایک ایسے گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے اسے نکالنا بہت ضروری ہو گیا ہے اور یہ کام نجمہ ہپت اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے ان کی خدمت میں چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
یو پی اے حکومت میں اقلیتی امور کے وزیر کے رحمن خان نے جاتے جاتے مولانا آزاد فاونڈیشن کو جو زخم لگائے ہیں وہ کافی دنوں تک بھر نہیں پائیں گے۔ یہ ایسے زخم ہیں جن کی ٹیس صرف اقلیتی طبقہ اور خصوصاً مسلمانوں کو محسوس ہوتی رہے گی۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وہ شکایت کریں تو کس سے اور فریاد کرنے جائیں تو کہاں۔ جب باغ کا مالی اور رکھوالا ہی غنچوں اور کلیوں کو مسلنے لگے اور خزاں کے علمبرداروں کا ہمنوا بن جائے تو پھر کون ہوگا جو گلوں کو مسکراہٹ اور کلیوں کو تبسم کا تحفہ دے سکے۔ یہ ملت اسلامیہ ہمیشہ اپنوں سے ہی دھوکہ کھاتی رہی ہے اور اپنے زخم خود ہی چاٹنے پر مجبور ہوتی رہی ہے۔ مسلمانوں کے بہت سے نام نہاد ہمدردوں نے مسلمانوں کے ساتھ فریب کیا ہے اور بہت سے قائدین نے دھوکہ دہی کی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ کے رحمن خان نے بھی، جن سے مسلمانوں نے بہت سی امیدیں لگا رکھی تھیں، اس قبیح روایت کو آگے بڑھایا ہے اور اغیار کے ہاتھوں میں اقلیتوں پر حملے کے لیے ایک موثر ہتھیار دے دیا ہے۔
مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے سبکدوش سکریٹری ایم ڈبلیو انصاری ایک بے حد ایماندار اعلی پولیس افسر ہیں۔ انھیں جب کے رحمن خان نے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی نوجوان نسل کی تعلیمی ترقی کو فروغ دینے والے ادارے مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کا سکریٹری بنایا تھا تو اس کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا تھا اور اس امید بلکہ یقین کا اظہار کیا گیا تھا کہ فاﺅنڈیشن، جو کہ نیم مردہ حالت میں ہے، ایک بار پھر جی اٹھے گا اور اس کی رفتار جو تقریباً ٹھپ ہو گئی تھی برق رفتاری میں بدل جائے گی۔ اس خیال کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ایم ڈبلیو انصاری نے چھتیس گڑھ میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس اور اس سے قبل دیگر اعلی پولیس عہدوں پر فائز رہ کر جو خدمات انجام دی ہیں وہ لائق صد ستائش ہیں۔ وہ خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ان کا کردار ایک اعلی پولیس افسر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی اعلی و ارفع رہا ہے۔ ان کا دامن صاف شفاف اور بے داغ رہا ہے۔ اسی لیے ان سے یہ امید تھی کہ ان کے دور میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا اور اقلیتی طلبہ میں تعلیم کے حصول کا ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوگا۔ اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے اور اقلیتی طلبہ کے اندر لاکھوں روپے اسکالر شپ کے دیے۔ لیکن اچانک کے رحمن خان کو کیا سوجھی کہ انھوں نے ان کو ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا۔
ایم ڈبلیو انصاری پر الزام ہے کہ انھوں نے غلط طریقے سے پیسہ خرچ کیا ہے۔ انھوں نے فاﺅنڈیشن کی جدیدکاری اور مرمت پر کل 64.43 لاکھ روپے خرچ کیے اور اس کام سے متعلق کوئی ٹنڈر بھی نہیں نکالا۔ در اصل معاملہ یہ ہے کہ کیمپس میں ایک طرف فاﺅنڈیشن کا دفتر تھا اور دوسری طرف ALIMCO کا دفتر، جہاں معذوروں کے لیے مفت رکشہ وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے 8 اکتوبر 2012 کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیمپس کی 50 فیصد زمین فاﺅنڈیشن کے پاس رہے اور 50 فیصد زمین ALIMCO کے پاس۔ فاﺅنڈیشن جس حصے میں پہلے کام کر رہی تھا وہ بہتر صورت حال میں تھا جب کہ جو حصہ الاٹ کیا گیا تھا وہ انتہائی مخدوش تھا۔ لیکن پھر اچانک نومبر 2013 کے آخر میں اقلیتی امور کی وزارت سے فرمان آیا کہ 31 دسمبر 2013 تک فاﺅنڈیشن کا دفتر الاٹ شدہ حصہ میں منتقل کر دیا جائے۔ اس کے لیے چونکہ صرف ایک مہینے کا وقت دیا گیا تھا اس لیے ایم ڈبلیو انصاری نے وقت برباد کرنے کی بجائے خود اپنے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے نہ تو اس کام کے لیے ٹنڈر نکالا اور نہ ہی کسی ٹھیکیدار کو ذمہ داری دی بلکہ خود ہی مارکیٹ سے سامان منگواتے اور خود ہی کھڑے ہو کر کام کرواتے۔ حالانکہ فاﺅنڈیشن کے ضابطوں کے مطابق پہلے ٹنڈر نکالا جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر اس ضابطے پر عمل کیا جاتا تو تین چار مہینے لگ جاتے۔ ایم ڈبلیو انصاری نے خصوصی حالات اور خصوصی اختیارات کے تحت وقت مقررہ پر کام پورا کیا اور پورا دفتر 31 دسمبر تک اپنی نئی جگہ منتقل ہو گیا۔ کے رحمن خان اور دیگر اعلیٰ افسران نے فاﺅنڈیشن کا دورہ کیا اور اس کام کے لیے سکریٹری کی تعریف بھی کی۔
سکریٹری پر الزام ہے کہ انھوں نے مقررہ بجٹ سے زیادہ خرچ کیا۔ واضح رہے کہ گورننگ باڈی نے 3 دسمبر 2013 کو 34 لاکھ روپے بلڈنگ کی جدید کاری اور مرمت کے لیے فراہم کیے تھے اور سکریٹری کو کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ظاہر ہے جب ہنگامی پیمانے پر کام ہوگا اور دن رات کام ہوگا تو اس پر اضافی خرچ تو آئے گا ہی۔ اس پورے معاملے اور اضافی خرچ سے فاﺅنڈیشن کے ساتھ ساتھ اقلیتی امور کی وزارت کے اعلیٰ افسران بھی واقف تھے۔ اس بارے میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھا۔ ہر کام انتہائی شفافیت کے ساتھ ہو رہا تھا۔ جہاں تک اضافی خرچ کا معاملہ ہے تو اس کی ذمہ دار وزارت ہے نہ کہ سکریٹری۔ کیونکہ اگر سکریٹری کو حسب ضرورت وقت ملتا تو یہ اضافی خرچ نہیں ہوتا۔ لیکن ایک نادر شاہی فرمان آیا کہ فلاں وقت تک دفتر کو دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے۔
اس صورت حال نے پتہ نہیں کیوں کے رحمن خان کو ایم ڈبلیو انصاری سے برگشتہ کر دیا۔ 2 مئی کو اچانک ایک فیصلہ کے تحت انھیں فاﺅنڈیشن کے سکریٹری کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا اور یہ ذمہ داری ایک افسر ڈی ایس بشٹ کے سپرد کر دی گئی۔ جب اس پر ہنگامہ ہوا تو بشٹ کو بھی ہٹا کر وزارت برائے اقلیتی امور میں ڈپٹی سکریٹری کی ذمہ داری انجام دے رہے ایم اے امام کو فاﺅنڈیشن کے سکریٹری کی اضافی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ لیکن پھر بھی ہنگامہ فرو نہیں ہوا تو پھر نئے سکریٹری کو بھی ہٹا دیا گیا اور سنٹرل وقف کونسل کے سکریٹری علی احمد خان کو سکریٹری کا اضافی چارج دے دیا گیا۔ اس فیصلہ سے کے رحمن خان کی شخصیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کیونکہ گزشتہ ایک سال میں فاﺅنڈیشن نے اقلیتوں کے درمیان تعلیمی، سماجی اور اقتصادی بیداری پیدا کرنے کے لیے مثبت کارروائیاں کی تھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رحمن خان فاﺅنڈیشن کو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے دھکیلنا چاہتے تھے۔ ان کے اقدام سے تو کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
پہلے تو انھوں نے فاﺅنڈیشن کا خزانچی ایک ایسے شخص کو بنایا جس کے بارے میں فاﺅنڈیشن کے ہی کچھ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کی حرکتیں ایسی تھیں جیسے وہ ذہنی طور پرمعذور ہوں۔ وہ فاﺅنڈیشن کے چھوٹے سے چھوٹے کام میں رخنہ اندازی کرتے جس سے کام بالکل رُک سا گیا تھا۔ آخر میں ان کو وقت سے پہلے ہی عہدہ سے ہٹا کر ایک دوسرے شخص کو یہ ذمہ داری سپرد کر دی گئی۔ اب جبکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ فاﺅنڈیشن کی سرگرمیاں بڑھیں گی تو اچانک سکریٹری ایم ڈبلو انصاری کو عہدہ سے ہٹا کر آئی پی ایس بشٹ کو ذمہ داری دے دی گئی تھی۔
فاﺅنڈیشن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ادارہ میں گزشتہ ایک سالوں میں مثبت تبدیلی آئی تھی اور ملازمین کی کمی کے باوجود لوگوں کو فرق نظر آ رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ فاﺅنڈیشن کی رفتار بالکل سست تھی۔ لڑکیوں کو اسکالرشپ فراہم کرنے اور تعلیمی شعبہ میں کام کرنے والے این جی اوز کو مالی امداد فراہم کرنے کی اسکیم چل رہی تھی لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ لوگوں کو نہیں مل پا رہا تھا۔ اس سال نہ صرف اسکالرشپ کے لیے بے پناہ فارم موصول ہوئے بلکہ مالی امداد کے لیے این جی اوز میں بھی بیداری دیکھی گئی۔ علاوہ ازیں فاﺅنڈیشن کی عمارت جو خستہ حالی کی شکار تھی مرمت بھی ہوئی۔ فاﺅنڈیشن کے ایک پرانے ملازم سے بات چیت کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں کے سینئر افسران ہر کام میں کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ایم ڈبلو انصاری کی وجہ سے کئی ایسے کام گھنٹوں میں ہو جاتے تھے جن کے لیے فائلیں ہفتوں تک اِدھر اُدھر بھٹکتی پھرتی تھیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ فاﺅنڈیشن میں محض 5 مستقل ملازم ہیں اور بقیہ تقریباً 20 ملازم غیر مستقل ہیں جن میں کچھ ملازم تو بارہ بارہ چودہ چودہ سال سے کام کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جس ادارے کو حکومت کی جانب سے 1200 کروڑ کا بجٹ حاصل ہووہاں کی صورت حال یہ ہے۔ وزارت چھوڑنے سے پہلے وزیر کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے عوام اسے یاد رکھے، لیکن کے رحمن خان نے تو تعلیم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ حالات کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وزارت میں بیٹھے ہوئے چند لوگ فاﺅنڈیشن کو اپنی انگلی پر نچانا چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کے رحمن خان چاہتے تھے کہ ایم ڈبلیو انصاری ان کے لیے ’کماو ¿ پوت‘ بنیں لیکن انصاری نے ان کی اس خواہش کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔ وہ ایمانداری کے ساتھ کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انھیں اس کو نہ تو اپنے لیے اور نہ ہی رحمان خان کے لیے دودھارو گائے بنانا تھا اور نہ ہی انھوں نے بنایا۔ شاید ایم ڈبلیو انصاری سے ان کی ناراضگی کی بڑی وجہ یہی ہے۔
بہر حال اب جبکہ یو پی اے حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے اور نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت بن گئی ہے اس مسئلے کو حل ہو جانا چاہیے۔ حسن اتفاق کہ اقلیتی امور کی وزیر نجمہ ہپت اللہ کو بنایا گیا ہے جو مولانا آزاد کی نواسی ہیں۔ یہ ادارہ مولانا آزاد کے نام پر ہے۔ لہٰذا ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس مسئلے پر توجہ فرمائیں گی اور مولانا آزاد ایجوکیشن فاﺅنڈیشن میں ہونے والی ان گڑبڑیوں کو دور کریں گی۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ اس ادارے کے وقار کو مجروح نہ ہونے دیں۔ ایم ڈبلیو انصاری کی قیادت میں ادارے میں نئی جان آئی تھی اور اس کے کاموں میں تیز رفتاری آگئی تھی۔ نجمہ ہپت اللہ بھی یہ چاہیں گی کہ مولانا آزاد کے نام پر قائم اس ادارے کے وقار کو بحال کیا جائے۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ ایم ڈبلیو انصاری کو دوبارہ سکریٹری کے عہدے پر بحال کریں تاکہ انھوں نے جس طرح فاﺅنڈیشن کے کاموں کو آگے بڑھایا ہے وہ متاثر نہ ہو اور مولانا آزاد کے نام کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ کی جا سکے۔ ایم ڈبلیو انصاری نے مولانا آزاد کی قیادت او ران کی صحافت پر جو گراں قدر کتاب شائع کی ہے وہ بھی ان کا ایک کارنامہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

***
sanjumdelhi[@]gmail.com
Mob.: 9818195929
سہیل انجم

The dilemma of Maulana Azad Education Foundation. Article: Suhail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں